Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’خیرات نہیں روزگار‘،چمن دھرنےکے شرکا نے حکومتی پیکج مسترد کر دیا

یکم نومبر کو حکومت کی جانب سے افغانستان جانے کے لیے پاسپورٹ اور ویزہ لازمی قرار دیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
بلوچستان کے ضلع چمن میں پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ سرحد پر مقامی افراد کی آمدروفت کے لیے پاسپورٹ کی شرط کے نفاذ کے خلاف دھرنا دو ماہ سے زائد کے عرصے سے جاری ہے۔
احتجاج کے باعث گذشتہ 40 دنوں سے پاک افغان سرحد ہر قسم کی تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کے لیے بھی بند ہے جس کی وجہ سے ہزاروں افراد بے روزگار ہو گئے ہیں۔
صوبائی حکومت نے چمن کے بے روزگار مزدوروں اور نوجوانوں  کے لیے 20 ہزار روپے ماہانہ وظیفے کا اعلان کیا ہے تاہم دھرنے کے منتظمین نے حکومتی پیکج کو مسترد کر دیا ہے۔
نگراں وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ ’صوبائی حکومت کو چمن کی مقامی آبادی کی مشکلات کا احساس ہے اس لیے چمن کے مقامی بے روزگار نوجوانوں کے لیے خصوصی پیکج کا اعلان کیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تقریباً 20 ہزار لوگوں کو ماہانہ 20 ہزار روپے دیے جائیں گے۔ یہ وظیفہ کم از کم چھ ماہ تک دیا جائے گا اور اس سلسلے میں حکومت نے چھ ارب روپے مختص کیے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے رجسٹریشن کا عمل شروع کر دیا گیا ہے اب تک چار سو نوجوانوں نے رجسٹریشن کرائی ہے۔

افغانستان کے لیے پاسپورٹ کی شرط کے خلاف پچھلے 68 روز سے دھرنا جاری ہے (فوٹو: فیس بک)

یاد رہے کہ پاکستانی حکومت نے 76 برسوں میں پہلی بار پاکستان افغان چمن سرحد پر یکم نومبر سے آمدروفت کے لیے ون ڈاکومنٹ رجیم یعنی پاسپورٹ اور ویزے کی شرط لازمی قرار دی ہے۔
اس سے پہلے چمن اور سپین بولدک سمیت سرحدی پٹی کے قریب دونوں جانب رہنے والوں کو پاکستانی اور افغان شناختی کارڈ پر آمدروفت کی اجازت تھی اور روزانہ 20 ہزار کے لگ بھگ افراد یہ سرحد بغیر پاسپورٹ اور ویزے کے عبور کرتے تھے۔
پاسپورٹ اور ویزے کی شرط کے نفاذ کے خلاف چمن کے مقامی تاجروں، مزدور تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے 21 اکتوبر سے چمن میں سرحدی گیٹ کے قریب دھرنا دے رکھا ہے۔ جس کی حمایت چمن کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے کی ہے۔
مظاہرین نے دھرنے کے ایک ماہ بعد نومبر کے آخر سے پاک افغان شاہراہ بند کر کے دونوں ممالک کے درمیان ہر قسم کی تجارت بھی بند کی۔
دھرنا کمیٹی کے ترجمان حاجی صادق اچکزئی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’چمن کے لاکھوں لوگوں کا روزگار سرحد سے وابستہ تھا جو حکومت کی نئی پالیسی سے ختم ہوگیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بے روزگاری سے تنگ آ کر ایک نوجوان نے خودکشی بھی کر لی تھی اور باقی لوگ بھی نان شبینہ کے لیے محتاج ہیں۔‘
نگراں صوبائی وزیر اطلاعات جان اچکزئی کا  کہنا ہے کہ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا اس وقت تک حکومت نے بے روزگار افراد کو نان نفقے کی خاطر خصوصی پیکج دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

حکومت کی جانب سے بیروزگار ہونے والے افراد کے لیے 20 ہزار روپے فی کس وظیفے کا اعلان کیا گیا ہے (فوٹو: فیس بک)

تاہم حاجی صادق اچکزئی کہتے ہیں کہ ’ہمیں یہ حکومتی خیرات نہیں بلکہ روزگار چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت نوجوانوں کو خود پر انحصار کرنے کی بجائے بھکاری بنانا چاہتی ہے، جو لوگ روزانہ سرحد پر چھوٹے پیمانے پر ضرورت اور تجارت کے سامان کی ترسیل کر کے کماتے تھے اب انہیں دوسروں کا محتاج بنادیا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت تو چند ماہ امداد دے گی اس کے بعد لوگ کیا کریں گے، کہاں سے اور کیسے کمائیں گے؟
انہوں نے یہ بھی کہا کہ صرف کاروبار ہی نہیں بلکہ لوگوں کی سرحد پار رشتہ داریاں بھی متاثر ہوئی ہیں۔
صادق اچکزئی کا کہنا تھا کہ ’ہمیں منگل کو اطلاع ملی تھی کہ جان اچکزئی اس پیکیج کا اعلان کرنے چمن آ رہے ہیں  جس پر دھرنے کے سینکڑوں شرکا کوئٹہ کو چمن سے ملانے والی شاہراہ پر کوژک کے مقام پر پہنچ گئے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ دھرنے کے شرکا اس بات پر مشتعل ہیں کہ جان اچکزئی کو چمن سے تعلق رکھنے کے باوجود یہاں کے لوگوں کی مشکلات کا احساس نہیں۔ اس لیے وہ ان کا استقبال انڈے اور ٹماٹروں استقبال کرنا چاہتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ صوبائی وزیر کو احتجاج کی اطلاع مل گئی تھی اس لیے انہوں نے اپنا دورہ منسوخ کیا اور پیکج کا اعلان پریس کانفرنس میں کیا۔

شیئر: