Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاپتہ افراد کیس، ’عدالت پارلیمان کو قانون سازی کا حکم نہیں دے سکتی‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے‘ (فوٹو: اُردو نیوز)
پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے لاپتہ افراد و جبری گمشدگیوں کے خلاف کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ ’عدالت پارلیمان کو قانون سازی کرنے کا حکم نہیں دے سکتی۔‘
منگل کے روز چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے  لاپتہ افراد و جبری گمشدگیوں کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ 
بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی نے نے سوال اُٹھایا کہ عدالت کیسے پارلیمنٹ کو حکم دے سکتی ہے کہ فلاں قانون سازی کرو؟ آئین کی کون سی شق عدالت کو اجازت دیتی ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم دے؟
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ’ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔‘ اس موقع پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عدالت قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی، صرف قانون کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
دخواست گزار خوشدل خان ملک نے عدالت سے استدعا کی کہ حکومت کو جبری گمشدہ افراد سے متعلق قانون سازی کا حکم دیا جائے۔
جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے نشاندہی کی کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق کمیشن تو بنا ہوا ہے۔
چیف جسٹس کے اس سوال پر کہ کون سا کمیشن بنا ہے؟ درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ ’جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں لاپتہ افراد کمیشن بنایا گیا لیکن اس نے اب تک کچھ نہیں کیا۔‘
انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ عدالت حکومت کو نوٹس بھیج کر پوچھے کہ 50 سال سےلاپتہ افراد کے بارے میں قانون سازی کیوں نہیں کی؟
اس موقع پر اعتزاز احسن کے وکیل شعیب شاہین روسٹرم پر آگئے اور چیف جسٹس کے پوچھنے پر بتایا کہ لطیف کھوسہ کا بیٹا گرفتار ہے تو انہیں وکالت نامہ دیا گیا ہے۔ 
انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ان کی درخواست پر اعتراضات عائد کیے گئے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اعتراضات کو خارج کر کے درخواستیں سن رہے ہیں کیونکہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے۔ 
چیف جسٹس نے کہا کہ ’اب سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بن گیا ہے، اسے پڑھ لیں۔‘
انہوں نے استفسار کیا کہ اعتزاز احسن نے درخواست میں کن تحفظات کا اظہار کیا ہے؟ 
جس پر شعیب شاہین نے بتایا کہ لوگوں کی گمشدگی اور پھر ایک طرح سے نمودار ہونے کا نقطہ اُٹھایا گیا ہے۔ 

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’عدالت قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی، صرف قانون کالعدم قرار دے سکتی ہے۔‘ (فوٹو: اُردو نیوز)

عدالت نے ان سے پوچھا کہ ’آپ کیا چاہتے ہیں کہ ہم کیا کریں؟ اپنی استدعا بتائیں۔‘ جس کا جواب دیتے ہوئے شعیب شاہین نے کہا کہ لاپتہ افراد کمیشن اپنا کام نہیں کر سکا اور نہ کر سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ ’یہ کمیشن کب کا ہے تب کس کی حکومت تھی؟‘ جس کے جواب میں  شعیب شاہین نے بتایا کہ یہ کمیشن 2011 میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں بنا۔  
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا اعتزازاحسن اپنی ہی حکومت کا نوٹیفکیشن معطل کرنا چاہتے ہیں؟  
شعیب شاہین نے اس دوران بتایا کہ کمیشن کی اپنی رپورٹ کے مطابق ابھی تک 2200 لوگ لاپتہ ہیں۔ 
اس موقع پر جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کتنے لوگ بازیاب ہوئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اعتزازاحسن خود پیپلز پارٹی حکومت میں وزیر بھی رہے، جس کے جواب میں شعیب شاہین نے کہا کہ جب کمیشن بنا تب وہ شاید وزیر نہیں تھے۔ 
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا اعتزازاحسن اس وقت بھی پیپلزپارٹی میں ہیں؟ جس کے جواب میں شعیب شاہین نے کہا کہ جی وہ ابھی پیپلزپارٹی میں ہیں۔  
شعیب شاہین نے اس موقع پر شیخ رشید، صداقت عباسی اور دیگر سیاسی افراد کی گمشدگیوں کا معاملہ اُٹھایا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا یہ سب لوگ خود عدالت کے سامنے درخواست گزار بنے ہیں؟‘
انہوں نے پوچھا کہ کیا یہ سب وہ لوگ ہیں جو خود وسائل نہیں رکھتے کہ عدالت آ سکیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ اس معاملے کو سیاسی بنانا چاہتے ہیں تو یہ فورم نہیں ہے۔ جو شخص دھرنا کیس میں نظرثانی درخواست لا سکتا ہے کیا اپنا کیس نہیں لگا سکتا؟ کل شیخ رشید کہہ دیں انھیں کوئی مسئلہ نہیں شعیب شاہین کون ہیں میرا نام لینے والا؟ شیخ رشید خود کتنی بار وزیر رہ چکے؟‘
انہوں نے کہا کہ ’کیا آپ شیخ رشید کو معصوم لوگوں کی کیٹیگری میں رکھیں گے؟ فرخ حبیب عثمان ڈار، صداقت عباسی یہ لوگ کون ہیں؟‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’کیا اس بات پر رنجیدہ ہیں یہ پی ٹی آئی چھوڑ گئے؟ کیا ہم انہیں یہ کہیں یہ واپس پی ٹی آئی میں آجائیں؟ یا تو کسی کو اعتزازاحسن کے سامنے اُٹھایا گیا ہو تو وہ بات کریں۔ یا کوئی خود آکر کہے مجھے اغوا کیا گیا تھا تو ہم سنیں۔ آپ ان کی جگہ کیسے بات کرسکتے ہیں؟ شعیب شاہین کیا آپ ان کے گواہ ہیں؟‘

شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا کہ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ابھی تک 2200 لوگ لاپتہ ہیں (فوٹو: ماہ رنگ بلوچ ٹوئٹر)

اس کے جواب میں شعیب شاہین نے کہا کہ پورا پاکستان گواہ ہے تو چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ ’آپ ایسے ڈائیلاگ نہ بولیں۔ آپ نے صرف ایک پارٹی کے لوگوں کا ذکرکیا۔ یہ سب آپ کی پارٹی چھوڑ گئے اس کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم اس معاملے کو بہت سیریس لینا چاہتے ہیں۔‘
دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا تمام لاپتہ افراد نے واپس آ کر بتایا کہ وہ اغوا ہوئے تھے؟  
چیف جسٹس نے شعیب شاہین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے پیپلزپارٹی یا مسلم لیگ نن کا ذکر نہیں کیا۔ آپ کی پوری درخواست ایک سیاسی جماعت کے گرد گھومتی ہے۔‘
انہوں نے پوچھا کہ کہ کیا آرٹیکل 184 تھری کے تحت ایک سیاسی مسئلے کو سنیں؟ چیف جسٹس آف پاکستان نے یہ بھی کہا کہ ’سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہ کریں، لاپتہ افراد کا کیس سنجیدہ نوعیت کا ہے، عدالت کا مذاق بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ انگریزی محاورہ ہے کہ ’اگر آپ حرارت برداشت نہیں کر سکتے تو کچن میں بھی نہیں جا سکتے۔‘
سماعت کے دوران شعیب شاہین نے کہا کہ شیریں مزاری نے گمشدہ افراد کے معاملے پر بل پیش کیا جو غاٸب ہو گیا۔  
جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ ’کیا اس معاملے پر شیریں مزاری نے استعفیٰ دیا؟‘
انہوں نے کہا کہ ’مسئلہ یہ ہے کہ جب سب عہدے پر ہوتے ہیں تو ذمہ داری کوٸی نہیں اُٹھاتا۔ کیا بل سینیٹ سے غاٸب ہوا تھا؟ چیٸرمین سینیٹ کون ہیں کس کے ووٹ سے بنے تھے؟‘
جس پر شعیب شاہین نے جواب دیا کہ سینیٹرز کے ووٹ سے صادق سنجرانی چیٸرمین سینیٹ بنے تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نام لیں کہ کس پارٹی کے ووٹ سے بنے تھے؟  
شعیب شاہین نے بتایا کہ وہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آٸی کے اتحاد سے چیٸرمین سینیٹ بنے تھے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ کی پارٹی کے ووٹ سے بنے چیٸرمین سینیٹ نے آپ کا بل گم کر دیا،  کیا آپ نے اس پر انہیں ہٹانے کی درخواست کی؟ آپ نے چیٸرمین سینیٹ پر ایک سنجیدہ الزام لگایا۔‘
شعیب شاہین نے کہا کہ انہوں نے اپنی درخواست میں اس معاملے پر کوٸی استدعا نہیں کی، یہ سارا واقعہ ایک بیک گراونڈ کے طور پر لکھا ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ نے بل غاٸب ہونے کا ذکر کیا تو پھر صادق سنجرانی کو فریق تو بنائیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ بہت ضروری اور اہم کیس ہے۔ یہ مسئلہ حل ہو گا جب ہم سب مل کر کریں گے، اب اس مسئلے کا حل نکالنا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سیینٹ آج بھی موجود ہے، آپ وہاں بھی جا سکتے ہیں، سب ذمہ داری قبول کریں۔ اعتزاز احسن کی درخواست میں سیاست جھلک رہی ہے۔‘
بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت بدھ کے روز ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو بھی آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔ 

شیئر: