Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاپتہ افراد کیس، ’عدالت ریاست کے اندر ریاست کی اجازت نہیں دے گی‘

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لاپتہ افراد کے اہلخانہ کے دکھوں میں کمی نہیں اضافہ ہوا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف لاپتہ افراد کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے پیش ہوئے ہیں۔
جمعے کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وزیراعظم شہباز شریف کو مخاطب کر کے کہا کہ ’اس عدالت نے آپ کو تکلیف اسی لیے دی کیوں کہ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ کیس بہت عرصے سے چلتا رہا۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتہ صحافی مدثر نارو کے مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اس عدالت کا آپ پر اعتماد ہے کہ آپ اس کا حل بتائیں۔ ایک چھوٹا بچہ اس عدالت میں آتا ہے، عدالت اسے کیا جواب دے، بدقسمتی سے اس بچے کو پچھلے وزیراعظم کے پاس بھیجا مگر کچھ نہیں ہوا۔‘
انہوں نے پوچھا کہ ’وزیراعظم صاحب، آپ اس مسئلے کا حل بتائیں کہ یہ عدالت کیا کرے۔‘ 
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ایک چیف ایگزیکٹیو نے اپنی کتاب میں لکھا کہ لوگوں کو اٹھایا، یہ آئینی عدالت ہے اور سویلین بالادستی پر یقین رکھتی ہے، سٹیٹ کے اندر سٹیٹ نہیں ہو سکتی۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ اس عدالت نے اس معاملے کو کئی بار وفاقی کابینہ کو بھیجا، آپ کو معاملہ بھیجا آپ نے کمیٹی بنائی، وزیراعظم صاحب یہ معاملہ کمیٹی کا نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’اس عدالت نے مناسب سمجھا کہ آپ کو بتایا جائے کہ مسئلہ کیا ہے، لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کمیشن بنا مگر اس کی کارکردگی مایوس کُن ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کمیشن کی سماعتوں سے اِن خاندانوں کے دکھوں میں اضافہ ہوا۔ 
وزیراعظم شہباز شریف نے عدالت میں کہا کہ ’میری سب سے پہلی ذمہ داری ہے کہ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کراؤں، میں نے سیلاب زدہ علاقوں کو دورے کیے اور ان سے ملاقاتیں کیں۔‘
 وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’میری ڈیوٹی اور بنیادی ذمہ داری ہے کہ ان کی بات سنوں اور حل کی کوشش کروں، میں نہیں چاہتا کہ بلاوجہ کی توجیہات سے بات گھماؤں۔‘

وزیراعظم شہباز شریف نے عدالت کو بتایا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے۔ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا یہ معاملہ تقریباً 20 برسوں سے آ رہا ہے۔
میں اس چھوٹے بچے سے ملا جو میرے چہرے پر کہتا رہا کہ وزیراعظم میرے ابو کو مجھ سے ملائیں۔ اس بچے کا یہی سوال بہت ہی ڈسٹربنگ ہے۔ میری ذمہ داری ہے کہ اس بچے کے والد کو ڈھونڈوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں اس عدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ میرے ڈومین میں جہاں تک ہے میں اپنی ڈیوٹی پوری کروں گا۔‘ 
چیف جسٹس نے کہا کہ ’دور نہیں قریب دیکھیں اسلام آباد سے ایک صحافی کو اٹھایا گیا، اٹھانے کی سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے مگر آج تک تفتیش نہیں ہوئی، اسلام آباد سے اب تو دن دھاڑے لوگوں کو اٹھایا جا رہا ہے۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اب تو ہر تھانے میں سی ٹی ڈی سینٹرز بنے ہیں، ایف آئی اے والے لوگوں کو اٹھاتے ہیں۔
انہوں نے وزیراعظم سے کہا کہ ’یہ کام اب پارلیمنٹ کا ہے، اس عدالت نے آپ کو بتا دیا کہ اس مسئلے کو جڑ سے ختم ہونا چاہیے۔‘
عدالت میں لاپتہ صحافی مدثر نارو کی والدہ نے بولنے کی اجازت طلب کرنے کے بعد بتایا کہ جب ہم 2021 میں دھرنے میں بیٹھ گئے تو سب آتے تھے کہ اٹھ جائیں ہم معاملے کو حل کریں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’میں نے وزیر داخلہ سے ملنے کی بہت کوشش کی مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت ریاست کے اندر ریاست کی اجازت نہیں دے گی، جنہوں نے نو، نو سال ملک پر حکومت کی انہوں نے ملک کا بیڑا غرق کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم کو عدالت سے جانے کی اجازت ہے مگر معاملہ حل نہ ہوا تو عدالت کے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا کہ ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے۔
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے عدالت کو بتایا کہ ’ہم اگر ایک دوسرے کے ساتھ نہیں چلیں گے تو معاملہ حل نہیں ہوگا۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت ریاست کے اندر ریاست کی اجازت نہیں دے گی۔ (فائل فوٹو: آئی ایچ سی)

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انہوں نے وزیر قانون اور وزیر داخلہ کے ساتھ مل کر اس معاملے پر کام کیا ہے۔ ’بجائے کسی پر الزام تراشیوں کے ہم خود اپنے ذمہ دار ہیں۔‘ 
چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ عدالت پارلیمنٹ کا بہت احترام کرتی ہے، صوبائی چیف ایگزیکٹیو بھی اس معاملے کے ذمہ دار ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس عدالت کے فیصلے سے پہلے ایگزیکٹیو نے اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اب کوئی لاپتہ نہیں ہوگا۔‘
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ ’یہ 22 سالوں کا مسئلہ ہے چند دنوں میں ٹھیک ہونے والا نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ چند دنوں میں ٹھیک ہوں گے تو یہ غلط ہے۔‘
وفاقی وزیر قانون نے عدالت سے لاپتہ افراد کے معاملے  پر پیش رفت کے لیے دو ماہ کی مہلت طلب کی۔
’بلوچستان میں ہماری اتحادی حکومت ہے اور بلوچ طلبہ کے مسئلے کو وہاں اٹھایا، اس کیس کو حل کرنے کے لیے ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ عدالت آپ کے کام میں مداخلت نہیں کرے گی۔‘
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی چیف ایگزیکٹیو یہ کہے کہ انٹیلی جنس محکمے میرے ہاتھ میں نہیں تو وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔‘ 
عدالت نے درخواست گزاروں کی اجازت سے وزیر قانون کو دو ماہ کی مہلت دیتے ہوئے سماعت 14 نومبر تک ملتوی کر دی۔

شیئر: