Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل کی حزب اللہ کے مضبوط گڑھ پر حملے کے بعد کیا لبنان جنگ میں شامل ہوگا؟

ڈرون حملے میں چھ افراد مارے گئے جو کہ مبینہ طور پر سب حماس سے وابستہ تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
منگل کو جب حماس کے اعلی عہدیداروں میں سے ایک صالح العاروری حزب اللہ کے زیر کنٹرول بیروت کے جنوبی مضافات میں اسرائیلی ڈرون حملے میں مارے گئے تو ہیرسیلون سے لے کر سوشل میڈیا تک لوگوں کے لبوں پر ایک ہی سوال تھا کہ آگے کیا ہوگا؟
گذشتہ کئی ہفتوں سے خطے میں ایران کی سب سے مضبوط پراکسی تنظیم حزب اللہ اسرائیلی فوج کے ساتھ لبنان  کے جنوبی سرحد کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ کرتی رہی ہے۔
تاہم منگل کو لبنانی دارالحکومت میں ہونے والا ڈرون حملہ اسرائیل کی جانب سے لبنان کے انتہائی شمال میں کیا جانے ایسا حملہ ہے جو کہ اسرائیل نے 2006 کی جنگ کے بعد پہلی مرتبہ کیا ہے۔
امریکن یونیورسٹی بیروت میں تاریخ کے پروفیسر اور سیاسی تجزیہ نگار مکرم رباح کا عرب نیوز کے ساتھ انٹرویو میں کہنا تھا کہ ’بہت سے لوگ سوچ رہے ہیں کہ ایران اور حزب اللہ کی جانب سے اس حملے کا کوئی نہ کوئی جواب دیا جائے گا۔ تاہم میرا نہیں خیال کہ یہ ممکن ہے کیونکہ جس طرح صالح العاروری کو نشانہ بنایا گیا اور پھر نیتن یاہو کے مشیر کی جانب سے براہ راست پیغام دیا گیا کہ حملے کا نشانہ حماس تھا نہ کر حزب اللہ اس سے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کو اس مشکل سے نکلنے کا راستہ مل جائے گا۔‘
ڈرون حملے کے بعد حزب اللہ کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ ’یہ لبنان پر سنگین حملہ ہے اور دشمن اور مزحمت کاروں کے درمیان جنگ میں ایک شدید پیش رفت ہے۔‘
اسی طرح حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے اسے دہشت گردی کی کارروائی اور لبنان کی سالمیت پر حملہ قرار دیا۔
ڈرون حملے میں چھ افراد مارے گئے جو کہ مبینہ طور پر سب حماس سے وابستہ تھے۔

فارس مقصد کا کہنا ہے کہ معاملہ تشویشناک ہے کیونکہ اس حملے نے حزب اللہ کو ایک مشکل صورتحال سے دوچار کیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

گوکہ اسرائیلی فوج نے اس حملے پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار ہے لیکن نیتن یاہو کے مشیر مارک ریگیو نے کہا کہ ’جس نے بھی اسے (حملے کو) کیا یہ واضح ہونا چاہیے کہ یہ لبنان کی ریاست پر حملہ نہیں۔ یہ حماس کی لیڈرشب کے خلاف سرجیکل حملہ تھا۔‘
پروفیسر رباح نے نشاندہی کی کہ گذشتہ 10 دنوں کے اندر شام میں ایران کے پاسداران انقلاب کے اہم افراد کے خلاف 15 ٹاگٹڈ حملے کیے گئے جس میں سے ایک میں پاسداران کے ایک اہم کمانڈر بھی مارے گئے۔
تاہم مڈل ایسٹ انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر فارس مقصد کا کہنا ہے کہ معاملہ تشویشناک ہے کیونکہ اس حملے نے حزب اللہ کو ایک مشکل صورتحال سے دوچار کیا ہے۔
’حزب اللہ کے حسن نصراللہ کی واضح وارننگ کہ لبنان کی سرزمین پر کسی پر قاتلانہ حملہ انتہائی جوابی حملے کو دعوت دے گا، کو نظرانداز کرکے اسرائیل حزب اللہ کو ایک مخمصے سے دورچار کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔‘
’حزب اللہ کو یا تو ان حملوں کا اسی طرح جواب دینا ہوگا جس سے اسرائیل کے ساتھ جنگ چھڑجائے گی جو کہ حزب اللہ نہیں چاہتا یا پھر اسرائیل کے حملوں کے سامنے ہیتھار ڈال دے جس سے نہ صرف اسرائیل کو مزید حملوں کی شہہ مل جائے گی بلکہ اسرائیل رول آف انگیجمنٹ اپنی مرضی کا طے کرے گا۔‘
فارس مقصد کا مزید کہنا تھا کہ ’منگل کے حملے کے بعد اب حزب اللہ کو اسرائیل کو جواب دینے یا اسرائیل کے سامنے چپ سادھ لینے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔‘

اسرائیلی ڈران حملے میں مارے جانے والے صالح العاروری حماس کے اعلی عہدیداروں میں سے ایک تھے۔ (فوٹو:عرب نیوز)

7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں اب تک 21 ہزار سے زائد فلسطینی مارے گئے ہیں جن میں واضح اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
جاری جنگ کا کوئی فوری خاتمہ اور امن کی طرف کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ہے۔ ایسے میں حماس کے اعلی عہدیدار کی ڈرون حملے میں ہلاکت کو بہت سے لوگ جاری جنگ کی شدت میں اضافے کرنے والے اہم عامل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ تاہم کئی لوگ اسے جاری جنگ میں ایک علامتی دھچکا کے طور پر لے رہے ہیں۔
پروفیسر رباح کا کہنا ہے کہ ’ جہاں تک میں سمجھتا ہوں چونکہ لبنان اس جنگ کا حصہ نہیں اس لیے حزب اللہ کچھ نہیں کرے گا۔‘
’زیادہ امکان یہی ہے کہ حزب اللہ کے گرافک ڈیزائنر صالح العاروری کے چہرے اور نام کو اس بیک گراؤنڈ میں شامل کر رہے ہوں گے جس کے سامنے کھڑے ہو کر حسن نصر اللہ خطاب کریں گے جس میں صالح العاروری کا نام بیت المقدس کی آزادی کی جانب جانے والی سڑک کے نام نہاد شہدا میں شامل کیا جائے گا۔‘
 

شیئر: