Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تاحیات نااہلی توبہ کا راستہ بند کر دیتی ہے: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’ہم اس کیس کو حل کیے بغیر نہیں چھوڑ سکتے۔‘ فائل فوٹو: اردو نیوز
پاکستان کی سپریم کورٹ نے ارکان پارلیمنٹ کی تاحیات نااہلی کے حوالے سے مقدمے میں متعدد آئینی و قانونی سوالات اٹھائے ہیں۔
جمعرات کو سپریم کورٹ کے سات رکنی لارجر بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک موقع پر ریمارکس دیے کہ کسی کو تاحیات نااہل کرنا اسلام کے بھی خلاف ہے کیونکہ اس طرح توبہ کا راستہ بند کر دیا جاتا ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ وہ آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی کی سزا پانچ سال کرنے کے قانون کی حمایت کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تاحیات نااہلی کے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر نظرثانی کی جانی چاہیے۔‘ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے دوران سماعت ایک موقع پر کہا کہ ملک میں اگلے ماہ آٹھ فروری کو عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور وقت کم ہے۔ ریٹرنگ افسران نااہلی کے حوالے سے اپنی اپنی تشریح کریں تو اس کیس کے ذریعے چاہتے ہیں کہ وضاحت وہ جائے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’ہم اس کیس کو حل کیے بغیر نہیں چھوڑ سکتے۔
سات رکنی بینچ میں شامل جسٹس مسرت ہلالی نے عدالتی معاون عزیر بھنڈاری سے پوچھا کہ ’کیا کوئی ایسی کوالیفیکیشن اس جج کے لیے بھی ہے جو دوسروں کو صادق و امین ڈیکلیئر کرے گا، کیا وہ خود اس پر پورا اترے گا۔‘
عزیر بھنڈاری ایڈووکیٹ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ’کیا میرے پاس یہ آپشن ہے کہ میں اس کا جواب نہ دوں۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ازراہ مذاق عدالتی معاون سے کہا کہ ’اس کا جواب دیتے ہوئے بہت محتاط رہیے گا۔‘
عزیر بھنڈاری نے ہنس کر جواب دیا کہ ’اس معاملے پر خاموش رہنا چاہتا ہوں۔‘
عدالت میں ایک معاون وکیل نے بتایا کہ آئین میں صادق و امین کا آرٹیکل باسٹھ ون ایف ایک آمر ضیا الحق نے شامل کیا تھا اور یہ سنہ 1973 کے آئین کا حصہ نہیں تھا۔
عدالتی معاون عزیر بھنڈاری کے مطابق آئین کے آرٹیکل 63 کی شق ایک کی ذیلی شقوں جی، ایچ اور آئی میں بھی نااہلی کی مدت کا ذکر نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ عدالت کے سامنے آئے اس معاملے کا حل اسلام میں ہے ’اور اس طرف ہم لوگ نہیں جاتے۔‘

سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ نے پانچ سال کے لیے نااہل قرار دیا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ان کے مطابق کسی کو تاحیات نااہل کرنا اسلام کے خلاف ہے کیونکہ آرٹیکل باسٹھ ون ایف انسان کو برا کہہ رہا ہے جبکہ انسان نہیں اعمال برے ہوتے ہیں۔ ’تاحیات نااہلی توبہ کا راستہ بند کر دیتی ہے۔ اگر توبہ کا راستہ خدا نے بند نہیں کیا تو عدالت کیسے کر سکتی ہے؟‘
سماعت کے دوران عدالتی معاون اور بینچ میں شامل ججز نے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دو فیصلوں کا حوالہ دیا جو نااہلی کے حوالے سے ہیں اور جن میں آپس میں تضاد پایا جاتا ہے۔
عدالت میں متعدد بار سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی جبکہ فیصل واوڈا کیس میں پانچ سال کی نااہلی کا ذکر کیا گیا۔
ان دونوں مقدمات میں ایک جیسے حقائق پر دو مختلف فیصلے دیے گئے تھے۔ یہ دونوں فیصلے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیے تھے۔
مقدمے کی مزید سماعت جمعے کی صبح ساڑھے نو بجے ہو گی۔

شیئر: