کیا پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی جانب سے حکومت سازی کے لیے مل بیٹھنے کی پیشکش کے بعد ملک میں پی ڈی ایم ٹُو کا منظر نامہ تشکیل پا رہا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو سیاسی حلقوں میں گردش کررہا ہے۔
یہ تحریر لکھے جانے تک الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نتائج کے مطابق پاکستان مسلم لیگ( ن) قومی اسمبلی کی 69 نشستیں حاصل کر کے سنگل لارجسٹ پارٹی بن کر اُبھری ہے۔
مزید پڑھیں
-
سب کے مینڈینٹ کا احترام، سب کو مل کر بیٹھنا ہوگا: نواز شریفNode ID: 835141
-
الیکشن 2024: اپنے حلقے میں ہارنے والے اہم قومی رہنما کون ہیں؟Node ID: 835196
پیپلز پارٹی 51 نشتستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد بھی کامیاب ہوئی ہے۔ اگرچہ ان کی تعداد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ارکان سے زیادہ ہے تاہم انہوں نے پارٹی کے انتخابی نشان پر الیکشن نہیں لڑا اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ’ آزاد‘ قومی اسمبلی میں سنگل لارجسٹ پارٹی ہیں جب تک کہ وہ خود کوئی گروپ نہ بنا لیں۔
وفاق میں حکومت سازی کے لیے جو منظر نامہ سامنے آیا ہے۔ اس میں دو آپشن ہیں، پہلا یہ کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) اپنے اتحادیوں ایم کیو ایم پاکستان، جے یو آئی( ف) استحکام پاکستان پارٹی، مسلم لیگ( ق) اور آزاد امیدواروں کو اپنے ساتھ ملا کر حکومت بنائے۔
دوسرا آپشن یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی طرف بڑھا جائے۔ان دونوں صورتوں میں حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت کے لیے ’میجک نمبر‘ پورے ہو سکتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے جمعے کی شام ماڈل ٹاؤن میں کارکنوں سے خطاب میں بتایا تھا کہ انہوں نے شہباز شریف کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ وہ اس حوالے سے آج ہی پیش رفت کریں اور آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان اور ایم کیو ایم سے ملاقاتیں کریں اور مل کر بتائیں کہ پاکستان کے موجودہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہم سب مل کر اس کشتی کو بھنور سے نکالیں۔
شنید یہی ہے کہ وفاق میں پی ڈی ایم طرز کی حکومت بنانے کے لیے آئندہ چند دنوں میں اسلام آباد اور لاہور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہے گا۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جیتنے والے آزاد امیدواروں میں سےکچھ پاکستان مسلم لیگ( ن) اور کچھ پیپلز پارٹی سے رابطے میں ہیں۔
پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار بھی اس رائے کا اظہار کر رہے ہیں کہ املک میں پی ڈی ایم ٹو کی حکومت بننے کے امکانات ہیں۔ سیاست میں کل کے حریف ایک دوسرے سے ہاتھ ملا سکتے ہیں۔ ملک کی سیاست میں ایسا بارہا ہوا ہے۔
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے جمعے کی رات لاہور میں مسلم لیگ ن کے ہیڈکوارٹر ماڈل ٹاؤن میں اپنے کارکنوں سے خطاب میں کہا تھا کہ ’ان انتخابات میں مسلم لیگ ن اکثریتی جماعت بن کر ابھری ہے لیکن ہم دوسری جماعتوں کے مینڈیٹ کا بھی احترام کرتے ہیں۔‘
نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا فرض ہے کہ اس ملک کو بھنورسے نکالنے کی تدبیر کریں، ہم نے پہلے بھی ملک کو مشکلات سے نکالا ہے اور آج بھی نکالنے کا اہتمام کر رہے ہیں۔‘
’میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم سب جماعتوں کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں چاہے وہ کوئی جماعت ہے یا فرد واحد ہے، چاہے وہ آزاد ارکان ہیں ہم ان کا بھی احترام کرتے ہیں۔ ان کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ اس زخمی پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کے لیے آؤ ہمارے ساتھ بیٹھو۔‘
ان کا کہنا تھا ہمارا ایجنڈا صرف اور صرف ایک خوشحال پاکستان ہے جو ہم نے پہلے بھی کر کے دکھایا ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ کس نے اس ملک کے لیے کیا کِیا ہے، ہم نے کیا کِیا ہے آپ کو معلوم ہے، ہم نے کون کون سے منصوبے بنائے آپ کو معلوم ہے، ہم نے پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالا اور کس طرح اسے ٹھیک کیا یہ آپ کو معلوم ہے۔ پاکستان کس طرح سے خوشحال ہوتا جا رہا تھا وہ آپ کو معلوم ہے، پاکستان کی کون کون سی دفاعی صلاحیت کے لیے ہم نے کیا کردار سرانجام دیا وہ آپ کو معلوم ہے۔
مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا آج ہمیں جو مینڈیٹ ملا ہے ضروری ہے کہ دوسری جماعتیں بیٹھ کر مل کر ایک حکومت قائم کریں اور پاکستان کو اس بھنور سے نکالیں، ہم بار بار انتخابات کرانے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ پاکستان کو مشکلات کے بھنور سے نکالنے کے کیے کم از کم 10 برس استحکام کے چاہییں۔
فہیم الحامد اردو نیوز، انڈپینڈنٹ اردو اور ملیالم نیوز کے جنرل سپروائزر ہیں۔