Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ خواتین رہنما جو اسمبلی کا حصہ نہ بن سکیں

چار سیاسی جماعتوں سے صرف 12 خواتین قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر منتخب ہوئیں۔
پاکستاں میں آٹھ فروری کو منعقد ہونے والے انتخابات ماضی کے انتخابات سے مختلف نہیں تھے کیونکہ اس بار بھی دھاندلی اور نتائج میں تبدیلی کے الزامات عائد ہوئے۔ ان انتخابات میں خواتین امیدواروں کے حوالے سے مسلسل بحث ہوتی رہی۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سب سے زیادہ خواتین کو ٹکٹس دے کر باقی جماعتوں کے مقابلے میں سر فہرست رہی لیکن اس کے باوجود کئی خواتین رہنماؤں سمیت کارکنان بھی اسمبلی کا حصہ بننے سے محروم رہیں۔
پی ٹی آئی کی کئی خواتین کو الیکشن سے قبل ہی سیاست چھوڑنا پڑی جبکہ کچھ الیکشن لڑ کر ہار گئیں۔ ان میں وہ خواتین کارکنان بھی شامل تھیں جو نامساعد حالات کے باوجود الیکشن لڑنے کے لیے تیار ہوئیں اور مرد امیدواروں کا مقابلہ کیا لیکن جیت نہ سکیں۔ چند خواتین کے حوالے سے کہا جا رہا تھا کہ وہ الیکشن لڑنے کے لیے میدان میں اتریں گی تاہم انہوں نے دلچسپی نہیں دکھائی۔
پی ٹی آئی کی جنرل نشستوں پر کئی خواتین کانٹے دار مقابلے کے بعد کامیاب قرار پائی ہیں۔ ان میں حافظ آباد این اے 67 سے انیقہ مہدی نے دو لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے جبکہ این اے 185 سے زرتاج گل بھی کامیاب ہوئیں۔ اسی طرح این اے 30 پشاور سے شاندانہ گلزار نے بھی میدان مارا۔
این اے 119 سے ن لیگ کی مریم نواز بھی قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئیں۔
مجموعی طور پر چار سیاسی جماعتوں سے 12 خواتین اپنے مخالف مضبوط ترین امیدواروں سے الیکشن جیت کر قومی اسمبلی کا حصہ بنی ہیں۔
تین خواتین ایسی تھیں جو الیکشن سے پہلے ہی سیاست اور اپنی جماعت سے الگ ہو گئی تھیں جس کے باعث وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکی تھیں۔ ان میں سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری بھی شامل ہیں جنہوں نے نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔ یوں وہ ابتداء سے ہی انتخابی دوڑ سے باہر ہو گئی تھیں۔
اسی طرح سابق ممبر پنجاب اسمبلی مسرت جمشید چیمہ نے بھی سیاست سے دوری اختیار کی۔

یاسمین راشد کو این اے 130 سے میاں نواز شریف سے شکست ہوئی۔ فوٹو: ٹوئٹر یاسمین راشد

ایک اور خاتون رہنماء اور سابق ممبر قومی اسمبلی بیرسٹر ملیکہ بخاری بھی 9 مئی کے واقعات میں گرفتار ہوئی تھیں جنہوں نے اڈیالہ جیل سے رہائی کے فوراً بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی تاہم وہ گزشتہ روز ایک بار پھر پی ٹی آئی میں شامل ہوگئیں لیکن قومی اسمبلی کا حصہ نہیں بن سکیں۔
ان خواتین سیاستدانوں کے علاوہ چند ایسی متحرک کارکنان بھی تھیں جن کے اسمبلی کا حصہ بننے کے حوالے سے چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں۔
ان میں خدیجہ شاہ بھی شامل ہیں جو فیشن ڈیزائنر ہونے کے علاوہ پی ٹی آئی کی کارکن بھی ہیں۔ انہیں نو مئی کے واقعات کی پاداش میں آٹھ ماہ جیل میں گزارنے پڑے تھے۔ عام تاثر تھا کہ سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ کی بیٹی پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے سامنے آئیں گی لیکن انہوں نے جیل سے رہائی کے بعد اپنے پیشے کے ساتھ جڑے رہنے کو ترجیح دی۔
دوسری طرف جیل میں قید جوشیلی کارکن صنم جاوید کے حوالے سے مسلسل کوششیں ہوتی رہیں کہ وہ سیاسی جد و جہد کے ساتھ ساتھ پارلیمانی سیاست میں بھی اپنا کردار ادا کریں۔
انہیں مریم نواز کے مقابلے میں مضبوط امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا تھا تاہم انہیں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے مشکلات کا سامنا رہا جبکہ بعد میں سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود وہ انتخابی دنگل میں نہیں کود سکیں۔
صنم جاوید این اے 119 اور این اے 121 سے پی ٹی آئی کی متوقع امیدوار تھیں لیکن پی ٹی آئی نے ٹکٹوں کا اعلان کر دیا تھا جس کے بعد انہوں نے انتخابات سے دستبرداری کا اعلان کیا۔
اس کے علاوہ متحرک سیاسی کارکن طیبہ راجہ کے حوالے سے بھی امید ظاہر کی جا رہی تھی لیکن وہ بھی انتخابی میدان میں سامنے نہیں آئیں۔ بونیر کے پی کے 25 سے پاکستان پیپلز پارٹی کی سویرا پرکاش جنرل نشست پر الیکشن لڑ رہی تھیں لیکن وہ بھی اسمبلی میں جانے کی دوڑ سے باہر ہوگئی ہیں۔
خواتین سیاسی ورکرز کے علاوہ خواتین سیاستدان اس بار انتخابات میں حصہ لے رہی تھیں جو فارم 47 کے مطابق اپنی نشست ہار چکی ہیں۔ اس بار پورے ملک کی نظریں این اے 130 میں یاسمین راشد اور میاں نواز شریف کے مقابلے پر تھیں لیکن یاسمین راشد اب تک کے نتائج کے مطابق اس حلقے میں ہار گئی ہیں۔

مسلم لیگ ن کی سائرہ افضل تارڑ کو این اے 67 میں شکست ہوئی۔ فوٹو: سکرین گریب

این اے 71 میں مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف اور پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ ریحانہ امتیاز ڈار کا مقابلہ بھی مضبوط تصور کیا جا رہا تھا تاہم ریحانہ امتیاز ڈار اسمبلی جانے والوں میں شامل نہیں ہوسکیں۔
این اے 64 گجرات سے چوہدری پرویز الٰہی کی اہلیہ قیصرہ الٰہی اور انہی کے فیملی ممبر چوہدری سالک حسین کا مقابلہ تھا تاہم قیصرہ الٰہی فارم 47 کے مطابق ہار گئی ہیں۔ اسی طرح سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہر بانو قریشی این اے 151 ملتان سے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی موسیٰ گیلانی کے مقابلے میں الیکشن لڑ رہی تھی‍‍ں تاہم وہ انتخابات ہار چکی ہیں۔
این اے 118 سے پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ عالیہ حمزہ مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز کے مقابلے میں الیکشن ہار چکی ہیں۔ عالیہ حمزہ اس وقت جیل میں ہیں جبکہ ان کی انتخابی مہم ان کی بیٹی سمیت خاندان کے دیگر ممبران نے چلائی۔
یہ وہ خواتین ہیں جن کا اب بھی دعویٰ ہے کہ یہ اپنی نشستیں جیت چکی ہیں اور ان کو دھاندلی کے ذریعے ہروایا گیا ہے۔ مسلم لیگ ن کی سائرہ افضل تارڑ کو این اے 67 میں ایک خاتون نے شکست دی۔
اسی طرح سب سے زیادہ بولنے والی سائرہ بانو بھی اس بار اسمبلی میں دکھائی نہیں دیں گی۔ جبکہ استحکام پاکستان پارٹی کی فردوس عاشق اعوان بھی این اے 70 سے ہار چکی ہیں جبکہ این اے 210 سے جی ڈی اے کی سائرہ بانو بھی اس بار قومی اسمبلی کی نشست ہار چکی ہیں۔
پی ٹی آئی کی دیگر خواتین رہنماؤں میں ایمان طاہر، کنول شوزب، عذرا مسعود، کوثر بھٹی، سیمابیہ طاہر اور عارفہ نذیر جٹ شامل ہیں جو اس بار اسمبلی جانے سے محروم رہی ہی‍ں۔
اسی طرح دیگر جماعتوں کی خواتین امیدواروں میں این اے 24 سے شازیہ تہماس، این اے 38 سے مہر سلطانہ، این اے 177 سے شیر بانو بخاری سمیت کئی دیگر خواتین رہنماء بھی اس بار اسمبلی جانے سے محروم رہیں۔

مہر بانو قریشی نے ملتان سے موسیٰ گیلانی کے مقابلے میں الیکشن لڑا۔ فوٹو: ٹوئٹر مہر بانو

انتخابات پر نظر رکھنے والے ادارے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے عام انتخابات کے لیے جنرل نشستوں پر خواتین امیدواروں سے متعلق رپورٹ بھی جاری کی تھی جس کے مطابق جنرل نشستوں کے لیے مجموعی طور پر 111 سیاسی جماعتوں کی 275 خواتین امیدوار عام انتخابات میں حصہ لے رہی تھیں۔
فافن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خواتین امیدوار قومی اور و صوبائی اسمبلیوں کی جنرل نشستوں پر نامزد 6037 امیدواروں کا 4.6 فیصد ہیں۔ تاہم اب تک کے نتائج کے مطابق چار سیاسی جماعتوں کی 12 خواتین امیدوار قومی اسمبلی کی نشست کے لیے منتخب ہوچکی ہیں۔ ان میں اکثر خواتین رہنماء پہلی بار الیکشن لڑ رہی تھیں تاہم اس بار اہم ترین خواتین رہنماء بھی الیکشن ہار گئیں ہیں جنہیں گزشتہ اسمبلی میں دیکھا جاتا رہا ہے۔

شیئر: