Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان کے مسائل، ’ڈائیلاگ، ڈیٹرنس اور ڈویلپمنٹ پالیسی کے تحت نمٹیں گے‘

بلاول بھٹو نے کہا کہ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے لوگ بلوچستان کے مسائل کو ترجیح نہیں دیتے۔ فائل فوٹو: اے پی پی
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بلوچستان میں پارلیمان کے اندر جماعتوں اور پارلیمان سے باہر سٹیک ہولڈرز سمیت سب کو ساتھ لے کر چلیں گے، لاپتہ افراد کا مسئلہ مشکل اور پیچیدہ ہے اس مسئلے پر بلوچستان اسمبلی کی تمام جماعتوں کی کمیٹی بنائی جائے گی، بلوچستان میں دہشتگردی سے نیشنل ایکشن پلان، سوات اور وزیرستان کی طرح ڈائیلاگ، ڈیٹرنس اور ڈویلپمنٹ پالیسی کے تحت نمٹیں گے۔
سنیچر کو کوئٹہ میں وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی حلف برداری کی تقریب کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ قومی سطح پر میثاق مفاہمت کی ضرورت ہے۔ ’بلوچستان میں بھی ہم مفاہمتی سوچ کے ساتھ حکومت چلائیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نہ صرف پارلیمان میں موجود بلکہ صوبے میں پارلیمان کے باہر کے ساتھ تمام سٹیک ہولڈرز سے بھی سے رابطے کریں گے کیونکہ کوئی ایک جماعت یا شخص اکیلے بلوچستان کے مسائل حل نہیں کر سکتی۔‘
انہوں نے کہا کہ 'امید ہے کہ ہم سب مل کر سر جوڑ کر نیک نیتی کے ساتھ بلوچستان اور بلوچستان کے عوام کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرینگے تو مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔'
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے لیے سرفراز بگٹی کا انتخاب پیپلز پارٹی کا اندرونی فیصلہ تھا تاہم منقسم مینڈیٹ کی وجہ سے باقی جماعتوں سے بھی اس بابت مشاورت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’گوادر میں بہت نقصان ہوا ہے۔ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی اپنا پہلا دورہ گوادر کا کریں گے اور مسائل حل کریں گے۔ عوام کو ریلیف پہنچانے کے لیے اعلان بھی کریں گے۔‘
بلاول بھٹو نے کہا کہ کہ اب 2008 جیسے حالات نہیں ، ہماری پچھلی حکومت نے آغاز حقوق بلوچستان پیکیج اور اٹھارہویں ترمیم دی ۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد 2008 کے مقابلے میں وزیراعلیٰ زیادہ مضبوط ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر آغاز حقوق بلوچستان پیکیج پر عمل ہوتا تو آج بلوچستان کے حالات بہتر ہوتے ہم اس پیکیج پر عملدرآمد کرائیں گے۔‘
بلاول بھٹو نے پی ٹی آئی کی جانب سے صدارتی امیدوار بننے پر محمود خان اچکزئی کو تنقید کا نشانہ بنایا ور کہا کہ ’سنی اتحاد کونسل کو حق حاصل ہے کہ وہ کسی کو بھی صدارت کے لیے امیدوار بنائیں لیکن محمود اچکزئی پی ٹی آئی کا نمائندہ بننے کے بعد خود کو قوم پرست رہنما نہیں کہہ سکتے۔‘

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے لیے سرفراز بگٹی کا انتخاب پیپلز پارٹی کا اندرونی فیصلہ تھا۔ فائل فوٹو: اے پی پی

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کو اب ایسی جماعت لیڈ کررہی ہے جو شہیدوں کی جماعت ہے ہماری کوشش ہوگی کہ بلوچستان کے عوام کو مزید قربانیاں اور شہادتیں نہ دینا پڑیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ متنازع اور پیچیدہ ہیں۔ ’ہماری کوشش ہوگی کہ مفاہمتی پالیسی کے تحت پارلیمانی کمیٹی بنائیں جو مل بیٹھ کر اس مسئلے کو دیکھیں۔ ہم تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس مسئلے پر پاکستان پیپلز پارٹی کا ساتھ دیں ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان اور پارلیمان میں تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل کمیٹی بنائیں گے جو سر جوڑ کر اس مسئلے کا حل نکالے گی اور اتفاق رائے پیدا کی کوشش کرے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم تمام جماعتوں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے سرفراز بگٹی کوووٹ دیا جنہوں نے ووٹ نہیں دیا ان کے بھی شکر گزار ہیں کہ انہوں نے مقابلے میں امیدوار کھڑآ نہیں کیا اس طرح سرفراز بگٹی سیاسی جماعتوں کے وزیراعلیٰ ہیں اور انشاء اللہ سب کا خیال رکھیں گے۔ سب کے جائز کام کرنے کی کوشش کریں گے۔‘
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے لوگ بلوچستان کے مسائل کو ترجیح نہیں دیتے۔ ’اب ہم بھی اسلام آباد میں بیٹھے ہوں گے تو صورتحال مختلف ہوگی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش ہوگی کہ اسلام آباد میں کم کوئٹہ اور کراچی میں زیادہ وقت گزاریں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ سندھ اور بلوچستان میں بہت سے مسائل ایک جیسے ہیں جن سے متعلق ہمیں وفاق سے شکایات ہوتی ہیں۔ امید ہے کہ دونوں صوبے سندھ اور بلوچستان ساتھ بیٹھ کر وفاق سے بات کریں گے توزیادہ مؤثر ہوگی۔صوبوں کو صوبائی خود مختاری اور ان کے اپنے وسائل دینے چاہیے۔
قوم پرستوں کے احتجاج سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ احتجاج سب کا حق ہے پارلیمان کے اندر اور پارلیمان کے باہر احتجاج کریں آواز اٹھائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری کوشش ہے کہ ملک میں موجود فالٹ لائنز کو مفاہمتی پالیسی کی مدد سے حل کریں تاکہ کوئی اور اس کا فائدہ اٹھا کر ملک اور صوبہ کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔‘

شیئر: