Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعظم شہباز شریف کی اپوزیشن کو ’میثاق مفاہمت‘ کی دعوت

شہباز شریف نے کہا کہ  ’ہماری کوشش ہے کہ حکومتی اقدامات کے ثمرات کہ ایک سال میں نظر آنا شروع ہو جائیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب کے دوران اپوزیشن کو ’میثاق معیشت اور ’میثاق مفاہمت‘ کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ شور شرابے کے بجائے اسمبلی میں شعور کا راج ہونا چاہیئے تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’اکٹھے ہوجائیں تاکہ یہ شور شعور میں بدل جائے، پاکستان کی تقدیر مل کر بدلیں گے، ہم نے صبر و تحمل سے کام لیا، کبھی بدلے کی سیاست کا نہیں سوچا، ہم نے اپنی سیاست کو قربان کرکے ملک بچایا، ملک کو بڑے بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔‘
شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’قدرت نے پاکستان کو ہر نعمت سے نوازا ہے، بیچ منجھدار میں پھنسی کشتی کنارے لگائیں گے، ملکی چیلنجز سے ملکر نمٹیں گے، ملک کی کشتی کو منجدھار سے نکال کر کنارے لے جائیں گے۔‘
 ’ہماری کوشش ہے کہ حکومتی اقدامات کے ثمرات کہ ایک سال میں نظر آنا شروع ہو جائیں۔‘
شہباز شریف کی تقریر کے دوران مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے گھڑی چور کے نعرے لگائے جب کہ سنی اتحاد کونسل کی طرف سے ووٹ چور کے جوابی نعرے بلند کیے گئے۔
شہباز شریف نے کہا کہ ’ہمیں دہشت گردی کے خلاف متحد ہونا چاہیے، سیکیورٹی فورسسز جانوں کی قربانی دیکر ملک و قوم کی حفاظت کر رہی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے پاکستان میں تعمیر و ترقی کے عظیم منصوبے شروع کیے۔ ان پر بے بنیاد کیسز بنائے گئے اور انہیں وزیراعظم کے عہدے سے ہٹایا گیا۔ انہوں نے پھر پر کبھی پاکستان کے مفادات کے خلاف بات نہیں کی۔

شہباز شریف نے کہا کہ  ہماری کوشش ہے کہ حکومتی اقدامات کے ثمرات کہ ایک سال میں نظر آنا شروع ہو جائیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)

پی ٹی آئی کا نام لیے بغیر انہوں نے کہا کہ ’یہ وہ فرق ہے جو ہم میں اور دوسری طرف ہے۔ جب ان کی باری آئی تو انہوں پوری اپوزیشن کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔ ایسے الفاظ استعمال کیے جو بھلائے نہیں جا سکتے۔ پاکستان کی افواج کے خلاف زہر اگلا۔‘
’انہوں نے اپنے دو صوبوں کے وزرائے خزانہ کو کہا کہ انہوں نے آئی ایم ایف کے معاملے پر مدد نہیں کرنی۔ اس قوم نے دیکھا کہ نو مئی کو اداروں پر حملے کیے گئے۔ کیا یہ بات قابل معافی ہے؟ یہ فیصلہ انصاف و قانون نے کرنا ہے۔‘
شہباز شریف نے کہا کہ ’ہمارے سامنے دو راستے تھے۔ ایک راستہ یہ تھا کہ ہم سیاست بچا لیتے اور دوسرا راستہ ملک کو بچانے کے لیے قربانی دینے کا تھا۔ ہم نے کبھی بدلے کی سیات کا سوچا بھی نہیں۔ ہم نے صبر و برداشت سے کام لیا۔‘
ان کہنا تھا کہ ’ہم ہمالیہ نما چیلنجز کو مل کر عبور کریں گے اور پاکستان کو عظیم بنائیں گے۔ یہ کہنا آسان ہے لیکن مشکل ہے۔ یہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ ہمارے سامنے دو راستے تھے۔ ایک راستہ یہ تھا کہ ہم سیاست بچا لیتے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

انہوں نے کہا کہ ’اس بجٹ کے دوران کل محصولات کا اندازہ 12 ہزار تین سو ارب روپے ہے۔ صوبوں کو تقسیم کے بعد صرف سات ہزار تین سو ارب بچتے ہیں۔ سود کی ادائیگی آٹھ ہزار ارب ہے۔ سات سو ارب کا خسارہ ہے۔ ترقیاتی منصوبوں، تعلیم اور صحت کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں کہاں سے دیں گے۔ یہ سب کچھ کئی سال سے قرض لے کر دیا جا رہا ہے۔‘
’ہماری صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ ہم اسی ہزار ارب روپے کے بیرونی و اندرونی قرضے لے چکے ہیں۔ ہمیں نظام کی ڈیپ سرجری کرنی ہے۔ بنیادی اصلاحات کرنی ہیں۔‘
بجلی کے حوالے سے انہوں نے کہا  کہ ’ہمارا ایک اور چیلنج بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ بجلی کا گردشی قرضہ 23 سو ارب تک پہنچ چکا ہے۔ پیداوار اور وصولی میں ایک ہزار روپے کا فرق ہے۔ بالٹی میں سوراخ ہو تو جتنا پانی ڈالیں وہ نکل جائے گا۔ ایک ہزار ارب روپے کی سبسڈی دینے کے باوجود پانچ سے چھ سو ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے۔‘

شیئر: