Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مفاہمت کے بادشاہ اور گرو کا راج‘ استحکام لا سکے گا؟

مسلم لیگ ن کا ماننا ہے کہ شہباز شریف کی مفاہمتی پالیسی کی بدولت ہی شریف خاندان اور ان کی جماعت آج ایک مرتبہ پھر مسند اقتدار پر براجمان ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سنہ 2016 میں پاناما پیپرز اور ڈان لیکس سکینڈلز کے بعد جب پہلے نواز شریف وزارت عظمٰی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور پھر ان کی جماعت 2018 کے انتخابات میں اقتدار سے محروم ہو گئی، یہاں تک کہ مسلم لیگ ن کی صف اول کی تقریباً تمام قیادت جیل میں ڈال دی گئی، ان حالات میں بظاہر یہ لگتا تھا کہ شاید اب یہ جماعت ایک طویل عرصے تک اقتدار میں واپس نہیں آئے گی۔
پھر جب نواز شریف لندن چلے گئے تو کئی سیاسی پنڈت تبصرے کرتے رہے کہ اب وہ کبھی پاکستان واپس نہیں آئیں گے۔ 
پاکستان میں عمران خان حکومت پر اپنی گرفت مضبوط کر چکے تھے اور اسٹیبلشمنٹ سے ان کے مثالی تعلقات چل رہے تھے۔ وہ اور ان کے وزرا اگلے دس برس تک حکومت کرنے کے دعوے کر رہے تھے۔
اس وقت مسلم لیگ ن ’ووٹ کو عزت دو‘ اور ’مجھے کیوں نکالا‘ کے نعرے لگا رہی تھی۔
پھر یکایک ہوا بدلی اور اپوزیشن جماعتیں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے بینر تلے اکٹھی ہو گئیں اور اپریل 2022 میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کروا کر شہباز شریف وزیراعظم منتخب ہو گئے۔
اسی پی ڈی ایم نے نگراں حکومت تشکیل دی اور اکتوبر 2023 میں نواز شریف بھی وطن واپس آ گئے۔
اب نئے انتخابات کے بعد ایک ’خصوصی بندوبست‘ کے ذریعے شہباز شریف دوبارہ وزیراعظم بن گئے ہیں۔
شہباز شریف کی جماعت کا ماننا ہے کہ اس ساری کایا پلٹ کے پیچھے انہی کا ہاتھ ہے اور ان کی مفاہمتی پالیسی کی بدولت ہی شریف خاندان اور ان کی جماعت آج ایک مرتبہ پھر مسند اقتدار پر براجمان ہے۔
اگرچہ ان کی پارٹی کے اندر اس ’مفاہمتی پالیسی‘ پر اختلافات اور بحث و مباحثہ بھی رہا مگر شہباز شریف اپنی حکمت عملی منوانے میں کامیاب رہے اور نہ صرف پارٹی کے اندر، بلکہ مقتدرہ کے ساتھ ساتھ کئی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی ’مفاہمت کا ہنر‘ استعمال کر کے اب اگلے کئی برس تک اپنی جماعت اور ملک کا روڈ میپ طے کرنے جا رہے ہیں۔

رسول بخش رئیس کے مطابق ’آصف علی زرداری ہمیشہ مفاد دیکھ کر مفاہمت کرتے ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری طرف نو مارچ کو پاکستان کے صدارتی محل میں بھی ’مفاہمت کا بادشاہ‘ تخت نشین ہونے جا رہا ہے۔
آصف علی زرداری جن کی ابتدائی سیاسی زندگی مختلف الزامات کے سائے تلے اور سلاخوں کے پیچھے گزری، کا واضح مفاہمتی رنگ دسمبر 2007 میں سامنے آیا جب انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ اور اپنی اہلیہ بینظیر بھٹو کے بم دھماکے میں مارے جانے کے بعد ’پاکستان کھپے‘ (پاکستان چاہیے) کا نعرہ لگا کر ملک میں کو انتشار سے بچایا۔
سنہ 2008 کے انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی تو آصف زرداری نے اسی مفاہمت کے ذریعے نہ صرف خود پانچ سالہ صدارتی مدت مکمل کی بلکہ ان کی جماعت نے بھی پورے پانچ سال حکومت کی۔
اگرچہ ایک موقع پر انہوں نے ’اینٹ سے اینٹ بجانے‘ کی دھمکی دے کر مزاحمت کی کوشش بھی کی، لیکن اس کے فوراً بعد انہیں ایک طویل عرصے تک دبئی میں رکنا پڑا اور پھر مفاہمت کے ذریعے وہ وطن واپس آ کر اس کے بعد سے مفاہمت کا جادو چلا کر ہر ناممکن کو ممکن بنا رہے ہیں۔
شہباز شریف کے ساتھ یہ آصف علی زرداری کی بھی ’مفاہمت‘ ہی تھی جس نے دیگر کئی جماعتوں کو عمران خان کے خلاف اکٹھا کیا اور پی ڈی ایم کی حکومت کو ممکن بنایا۔

شہباز شریف کے ساتھ یہ آصف علی زرداری کی بھی ’مفاہمت‘ ہی تھی جس نے پی ڈی ایم کی حکومت کو ممکن بنایا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس بارے میں آصف زرداری نے خود ایک انٹرویو میں کہا کہ ’وہ ناممکن کو ممکن اس لیے بنا لیتے ہیں کہ وہ لوگوں کے پاؤں پڑتے ہیں۔‘
جہاں بات صدر اور وزیراعظم کے مفاہمتی رویے کی ہے وہاں یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی سیاست کا ایک اور بڑا فیکٹر اسٹیبلشمنٹ بھی اب ملک میں استحکام لانے کے لیے مفاہمت کو فروغ دینے کا خواہاں ہے۔
ماہرین اس تمام منظر نامے کو مختلف زاویوں سے دیکھ رہے ہیں۔
پولیٹکل سائنس کے سینیئر پروفیسر رسول بخش رئیس اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مفاہمانہ پالیسی اسی وقت حقیقی اور ثمر آور ثابت ہو گی جب اس کا برتاؤ بغیر کسی امتیاز کے کیا جائے گا۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مخصوص حلقوں کے ساتھ کی جانے والی مفاہمت نتیجہ خیز اور دیرپا نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ مفادات اور وقت کی محتاج ہوتی ہے۔
رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں اس وقت رائج مفاہمت کے بارے میں لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں۔
’اگر زرداری صاحب کی مفاہمت کی بات ہو رہی ہے تو وہ ہمیشہ مفاد دیکھ کر مفاہمت کرتے ہیں ورنہ نہیں۔ ابھی جو مفاہمت ہو رہی ہے وہ اس لیے ہو رہی ہے کہ آصف علی زرداری اور شہباز شریف دونوں کو خطرہ ہے۔

اب نئے انتخابات کے بعد ایک ’خصوصی بندوبست‘ کے ذریعے شہباز شریف دوبارہ وزیراعظم بن گئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’وہی خطرہ مقتدرہ کو بھی ہے۔ اور ان تینوں سٹیک ہولڈز کی مفاہمت یہ ہی ہے کہ یہ تینوں اس ایک خطرے سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کو مدد فراہم کر رہے ہیں۔‘
’یہ تین سیاسی طاقتوں کی ایک تکون ہے اور اس تکون کے تینوں سروں کو جوڑے رکھنے کو یہ لوگ مفاہمت کا نام دے رہے ہیں۔
رسول بخش رئیس کا ماننا ہے کہ اگر یہ تینوں ’پاور فورسز‘ حقیقی مفاہمت کو فروغ دینے کی خواہاں ہوتیں تو حال ہی میں انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کا حصہ نہ بنتیں۔
’ان کی مفاہمت کا نظریہ یہ ہے کہ اس وقت ان تین سِروں کا اکٹھا رہنا ضروری ہے کیونکہ جس دن اس تکون کا ایک کونہ اِدھر اُدھر ہو گیا اس دن اس مفاہمت کی رسی ٹوٹ جائے گی اور وہ سیاسی قوت طوفان کی طرح سامنے آ جائے گی جس سے یہ سب بچنا چاہ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دیکھنا یہ ہو گا کہ تکون کے یہ تینوں سِرے کیسے مفاہمت اور قومی اداروں کو استعمال کر کے اپنے وجود کو جائز تسلیم کروائیں گے۔
رسول بخش رئیس نے مزید کہا کہ ’یہ دیکھنا بھی کافی دلچسپ ہو گا کہ پاکستان کے سیاسی ڈھانچے کی از سرِنو تراش خراش کیسے ہوتی ہے؟ کیا یہ ’مفاہمتی تکون‘ اپنی تعمیری کارکردگی اور اداروں کے استعمال کے ذریعے انتخابی نتائج کی مبینہ تبدیلی اور مقبول رائے عامہ کو مسترد کرنے کے تاثر سے باہر نکل سکے گی؟

ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے مطابق ’صرف عسکری قوتوں سے مفاہمت اور ان کی خدمت سے استحکام نہیں آتا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

صوبہ پنجاب کے سابق نگراں وزیراعلٰی اور سینیئر سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے خیال میں اس مفاہمت کے دیرپا ہونے میں شکوک وشبہات ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کو معیشت اور اپوزیشن کے شدید چیلنجز درپیش ہیں اور ان سے صرف مفاہمانہ بیانات کے ذریعے نمٹا نہیں جا سکتا بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
’صرف عسکری قوتوں سے مفاہمت اور ان کی خدمت سے استحکام نہیں آتا۔ عوام اور اپوزیشن بھی اس نظام کا حصہ ہیں اور ان سے معاملات طے کرنا اصل مفاہمت ہے۔ جس مفاہمت کی یہ بات کر رہے ہیں اس کا نظام صرف چھ ماہ چل سکتا ہے۔ اس کے بعد حقیقی مسائل سے نمٹنے کے لیے حقیقی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
ڈاکٹر حسن عسکری نے مزید کہا کہ ’پاکستان کی صورتحال میں اتنے زیادہ پہلو ہیں کہ طویل المدت پیش گوئی نہیں کر سکتے کہ یہ نظام آنے والے وقت کیسے چلے گا۔‘

شیئر: