Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا وزیراعظم شہباز شریف اپنے اختیارات پر سمجھوتہ کر رہے ہیں؟

وزیراعظم اور وزیر داخلہ میں اختلافات کی خبریں میڈیا میں گردش کر رہی ہیں (فوٹو: پی ایم ایل این)
وزیراعظم شہباز شریف کو دوسری مرتبہ مسند اقتدار پر براجمان ہوئے 20 دن گزر گئے ہیں لیکن اب کی بار ان کی وہ ’شہباز سپیڈ‘ نظر نہیں آئی جس کے لیے وہ مشہور ہیں۔ تاحال بیوروکریسی کی دوڑیں لگی ہیں اور نہ ہی وزیراعظم نے علی الصبح سب کو لائن حاضر کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔
اس کے برعکس وزیراعظم شہباز شریف کچھ معاملات جہاں سست روی سے چل رہے ہیں وہیں انھیں اپنے ہی کیے فیصلے تبدیل کرنا پڑ رہے ہیں۔
اس کی تازہ ترین مثال کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی تشکیل اور پھر تشکیل نو ہے۔ وزیراعظم نے پہلے اقتصادی رابطہ کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن جاری کیا اور ماضی قریب کی روایت کے برعکس خود کو کمیٹی کا چیئرمین تعینات کیا۔ لیکن اگلے ہی دن وزیراعظم نے اس فیصلے کو تبدیل کیا اور اپنے بجائے وزیر خزانہ کو کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا۔
اس سے قبل بھی وزیراعظم نے واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے سابق چیئرمین اور بائیسویں گریڈ کے ریٹائرڈ افسر ظفر محمود کو بطور چیئرمین انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) تعینات کیا لیکن چند ہی دنوں بعد سندھ حکومت کے احتجاج پر تعیناتی کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا۔
دوسری جانب آئی جی اسلام آباد، چیئرمین سی ڈی اے اور چیئرمین پی سی بی کا عہدہ ساتھ رکھنے کے معاملات پر بھی وزیراعظم اور وزیر داخلہ میں اختلافات کی خبریں میڈیا میں گردش کر رہی ہیں۔ یہ بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ وزیر داخلہ نے مقتدر حلقوں میں وزیراعظم کی شکایت بھی کی ہے جس کے بعد دونوں کے درمیان ایک ملاقات بھی ہوئی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ ابتدائی ایام میں فیصلے تبدیل کرنے سے وزیراعظم کو آگے چل کر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے (فائل فوٹو)

امکان یہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وزیر داخلہ اپنی مرضی کی ٹیم لانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اس سلسلے میں وزیراعظم وزیر داخلہ کی خواہش کا احترام کریں گے۔
ایک ایسے وقت میں جب وزیراعظم کو سخت اپوزیشن کا سامنا ہو اور اپوزیشن صرف حکومتی اقدامات پر ہی نہیں بلکہ حکومت کی تشکیل کی قانونی حیثیت کو ہی تسلیم کرنے پر رضا مند نہ ہو ایسے میں وزیراعظم کا اختیار بار بار چیلنج ہونے سے ملک میں گورنینس کے مسائل پیدا ہونے کا احتمال ہے۔
اس صورت حال پر اگرچہ حکومت کا موقف ہے کہ یہ سب معمول کی چیزیں ہیں اور فیصلے تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن ان معاملات کو قریب سے دیکھنے والے سب اچھا اور معمول کی خبر نہیں بتا رہے۔
گورننس کے امور پر نظر رکھنے والے ماہرین اور سابق بیوروکریٹس کا خیال ہے کہ وزیراعظم کو ابتدائی دنوں میں اپنے فیصلے تبدیل کرنے پڑنے سے مستقبل قریب میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
سابق وفاقی سیکرٹری کابینہ فضل عباس میکن نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ وزیراعظم کے اختیارات کمپرومائز ہو چکے ہیں۔ جب وزیراعظم کو پے در پہ اپنے فیصلے تبدیل کرنے پڑ رہے ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں کمزوری ہے۔
انہوں نے ایک شعری مصرے میں اس کمزوری کا ذکر کرتے ہوئے کہا 'میری تعمیر میں مضمر ہے صورت خرابی کی'

ایک سابق وفاقی سیکریٹری کے مطابق ‘وزیراعظم جو فیصلے کر رہے ہیں ان میں پارٹی کی سپورٹ بھی نظر نہیں آ رہی۔‘ (فوٹو: پی ایم ایل این، سوشل میڈیا)

ان کا کہنا تھا کہ جس طرح  انتخابات ہوئے ہوئے ہیں اور یہ حکومت تشکیل پائی ہے اور اس کے بعد وفاقی کابینہ میں جس طرح غیر منتخب افراد کو شامل کیا گیا ہے اس سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے 'نہ ہاتھ باگ پر ہے اور نہ پا ہے رکاب میں' یعنی معاملات وزیراعظم کے بجائے کوئی اور چلا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر وزیراعظم کے اختیارات یوں ہی کمپرومائز ہوتے رہے تو حالات اچھی سمت میں جاتے ہوئے نظر نہیں آتے۔
ایک اور سابق وفاقی سیکرٹری نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک بات جو بالکل شفاف نظر آرہی ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ وزیراعظم با اختیار نہیں ہے اسی وجہ سے انہیں اپنے فیصلے واپس لینے پڑ رہے ہیں۔ اگر وزیراعظم با اختیار ہوتے تو اپ نے فیصلوں پر قائم رہتے اور ان پر عمل درآمد کرواتے۔
ان کے مطابق اس وقت وزیراعظم جو فیصلے کر رہے ہیں اس میں ان کی پارٹی کی سپورٹ بھی نظر نہیں آرہی یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے فیصلوں پر کھڑے نہیں ہو پا رہے۔ اور پارٹی بھی ان کے فیصلوں کا بھرپور انداز سے دفاع نہیں کر رہی۔
سابق وفاقی سیکرٹری کا کہنا تھا کہ یہ تاثر بالکل واضح ہو کر نظر آ رہا ہے کہ فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں اور وزیراعظم کو مجبوراً ان پر عمل کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر صورتحال یہی رہی تو مستقبل کا نقشہ کچھ اچھا نظر نہیں آ رہا۔

وزیراعظم اس بار ماضی کے برعکس مختلف مقامات کے دوروں اور موقع پر ہی احکامات جاری کرنے سے گریز کرتے نظر آ رہے ہیں (فائل فوٹو)

اس حوالے سے رابطہ کرنے پر وزیراطلاعات عطاءاللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کا اختیار ہے انہوں نے وزیر خزانہ کو زمہ داری دی ہے۔ فیصلے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اس میں کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ وزیراعظم کابینہ کی تمام کمیٹیوں کی نگرانی کریں گے اور جہاں ضرورت ہوگی رہنمائی بھی کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں ہم معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر پوری تندہی سے کاربند ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف روزانہ کی بنیادوں پر معیشت پر اجلاس منعقد کر رہے ہیں۔ حکومتی توجہ عوام کے مسائل کے حل پر مرکوز ہے۔ نجکاری، حکومتی اخراجات میں کمی، ٹیکس اصلاحات، ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن، ٹیکس نیٹ میں اضافہ جیسے اقدامات پر ہماری توجہ ہے۔ ملکی معیشت کو بہتر کرنے کے لئے تمام اقدامات کے حوالے سے روڈ میپ بن رہا ہے۔
خیال رہے کہ ماضی میں سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت بھی انھیں با اختیار وزیراعظم کہتی تھی لیکن اقتدار سے نکلنے کے بعد عمران خان نے خود کئی ایک انٹرویوز میں بتایا کہ ان کی حکومت میں فیصلے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کیا کرتے تھے۔  

شیئر: