ان کے علاوہ خط لکھنے والے وکلا میں سلمان اکرم راجہ، عبدالمعیز جعفری، ایمان مزاری اور زینب جنجوعہ بھی شامل ہیں۔
وفاقی حکومت کی طرف سے انکوائری کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے خط میں لکھا گیا ہے کہ ’وکلا نے اس طرز عمل پر اپنے گہرے عدم اطمینان اور مایوسی کا اظہار کیا ہے اور یہ عمل عدلیہ کی آزادی کے اصول کے خلاف ہے۔‘
خط کے متن کے مطابق ’انکوائری کمیشن کو تحقیقات کرنے کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے بنائے گئے ٹی او آرز کے مطابق کام کرنا ہوگا، مزید یہ کہ انکوائری کا ٹائم فریم اور رپورٹ کو پبلک کیا جائے گا یا نہیں یہ اختیار بھی حکومت کے پاس ہوگا۔ وفاقی حکومت کو دیے گئے اس طرح کے اختیارات کے پیش نظر انکوائری کمیشن عدلیہ کی آزادی پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ضروری اختیارات سے محروم ہو جائے گا۔‘
خط میں لکھا گیا کہ ’وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں کی جانے والی انکوائری ان اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہے جن کا تحفط یہ انکوائری کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس طرح کا کوئی بھی انکوائری کمیشن اور اس کی کارروائی مکمل طور پر ساکھ کو متاثر کرے گی۔‘
مزید کہا گیا کہ ’یہ پہلا موقع نہیں ہے جب اس طرح کے الزامات لگائے گئے ہوں، جسٹس (ریٹائرڈ) شوکت عزیز صدیقی نے اسی طرح کے الزامات لگائے تھے اور اس کے نتیجے میں انہیں بغیر رسمی کارروائی کیے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔‘
سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا گیا کہ ’وہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس معاملے کا اپنے دائرہ اختیار میں نوٹس لے کیونکہ یہ مسئلہ عوامی مفادات اور بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق ہے۔‘
خط میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ ’شفافیت یقینی بنانے کے لیے اس معاملے کو سیاست زدہ نہ کیا جائے، سپریم کورٹ گائیڈ لائنز مرتب کرے اور تمام ہائی کورٹس کے ساتھ مل کر شفاف ادارہ جاتی میکانزم قائم کرے تاکہ آئندہ عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کی کسی بھی کوشش کی اطلاع دی جا سکے۔‘
’ہم سپریم کورٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تمام دستیاب ججوں پر مشتمل ایک بینچ تشکیل دے جو اس معاملے کی سماعت کرے اور کارروائی کو عوام کے لیے براہ راست نشر کیا جائے۔‘
خط میں مزید لکھا گیا کہ ’مؤثر اور شفاف طریقے سے اس معاملے کو نمٹایا جائے تاکہ مستقبل میں عدلیہ کی آزادی پر حرف نہ آئے۔‘
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں نے عدالتی کیسز میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت پر سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ تھا جس میں عدالتی معاملات میں انتظامیہ اور خفیہ اداروں کی مداخلت پر مدد مانگی گئی تھی۔