پابندی کے باوجود پاکستان میں گاڑیوں کی درآمد کیسے؟
پابندی کے باوجود پاکستان میں گاڑیوں کی درآمد کیسے؟
پیر 15 اپریل 2024 7:34
زین علی -اردو نیوز، کراچی
عبدالرحمن اعزاز کے مطابق روپے کی قدر میں کمی اور شہریوں کی قوت خرید متاثر ہونے کی وجہ سے پہلے ہی گاڑیوں کی خریداری کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ (فوٹو: گاڑی ڈاٹ پی کے)
پاکستان میں بیرون ممالک سے درآمد کی جانے والی گاڑیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
بیرون ممالک سے گاڑیوں کی درآمد پر پابندی کے باوجود گاڑیوں کے پاکستان آنے پر مقامی سطح پر گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے گاڑی درآمد کرنے کی پالیسی میں نرمی کی وجہ سے مقامی صنعت بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹیو پارٹس اینڈ ایسیسریز مینوفیکچرز (پاپام) کے چیئرمین عبدالرحمان اعزاز نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بیرون ممالک سے گاڑیاں درآمد کرنے کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ مقامی سطح پر گاڑیاں اور ان کے سامان بنانے والوں کے لیے تشویشناک بات ہے۔ اگر بیرون ممالک سے گاڑیاں پاکستان میں لائی جائے گی تو مقامی سطح پر گاڑیاں تیار کرنے والوں کے لیے کام کرنا مشکل ہو جائے گا۔‘
عبدالرحمان اعزاز کے مطابق گذشتہ برس ملک میں ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجہ سے کمپنیوں کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کے علاوہ معیشت کی زبوں حالی جہاں دیگر شعبوں کو متاثر کر رہی ہے وہیں آٹو سیکٹر بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں روپے کی قدر میں کمی اور شہریوں کی قوت خرید متاثر ہونے کی وجہ سے پہلے ہی گاڑیوں کی خریداری کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں اگر باہر سے تیار گاڑیاں پاکستان درآمد کی جائیں گی تو مقامی سطح پر گاڑیوں کی صنعت کبھی پروان نہیں چڑھ سکے گی۔
واضح رہے کہ پاکستان میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ایک ماہ قبل ملک میں تیار ہونے والی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس کی شرح 18 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کر دی ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق ملک میں تیار 1400 سی سی یا اس سے زائد انجن والی گاڑیوں پر 25 فیصد سیلز ٹیکس لیا جائے گا جبکہ اضافی سیلز ٹیکس 40 لاکھ یا زائد قیمت والی گاڑیوں پر بھی عائد ہو گا۔
ایف بی آر کے مطابق مقامی طور پر تیار ڈبل کیبن، فور ویل پک اپ پر بھی اضافی سیلز ٹیکس عائد ہو گا۔ شہریوں کو اب مذکورہ گاڑیاں خریدنے پر بھاری ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔
پاپام کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ ایک جانب ملکی سطح پر تیار ہونے والی گاڑیوں پر ڈیوٹی بڑھا دی گئی ہے تو دوسری جانب بیرون ممالک سے درآمد کی جانے والی گاڑیوں کی ڈیوٹی میں رعایت دی گئی ہے۔ اس سے مقامی کار ساز کمپنیوں کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تاہم دوسری جانب پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے بیرون ممالک سے گاڑیاں درآمد کرنے کو خوش آئند قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مقامی سطح پر گاڑیاں اسمبل کرنے والی کمپنیاں صارفین سے بھاری رقم وصول کرنے کے باوجود انہیں جاپانی گاڑی کی قیمت میں معیاری گاڑی نہیں دے پا رہیں۔ اس کی وجہ سے صارفین مقامی سطح پر بننے والی گاڑی کے مقابلے میں امپورٹ کی گئی جاپانی گاڑی کو خریدنے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔
’پاکستان میں گاڑیاں اسمبل کرنے والوں نے مارکیٹ میں اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ جو کمپنی جب چاہتی ہے اپنی مرضی سے گاڑیوں کی قیمت بڑھا دیتی ہے اور اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔‘
ایچ ایم شہزاد نے مطالبہ کیا کہ ملک میں گاڑیوں کی امپورٹ سے عائد پابندی ختم کی جائے تاکہ صارف کو سستی اور معیاری گاڑی میسر آ سکے اور ملک میں اجارہ داری قائم کرنے والی چند کار ساز کپمنیوں کا اثر ٹوٹ سکے۔
بیرون ممالک سے گاڑی کیسے درآمد کی جا سکتی ہے؟
آل پاکستان موٹر امپورٹرز ایسوسی ایشن کے رہنما محمد کامران کے مطابق پاکستان میں بیرون ممالک سے گاڑی منگوانے کی اجازت نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں بیرون ممالک سے درآمد ہونے والی گاڑیاں گفٹ سکیم اور اووسیز کے اپنے استعمال کے لیے ہی درآمد کی جا سکتی ہیں۔
محمد کامران کے مطابق پاکستان سے باہر رہنے والا پاکستانی شہری اپنے یا اپنے اہلخانہ کے استعمال کے لیے ایک گاڑی باہر سے منگوا سکتا ہے۔
’پاکستان میں گاڑیوں کے کاروبار سے وابستہ افراد کو ملک میں گاڑی منگوانے کی اجازت نہیں ہے۔ شو روم مالکان یا گاڑیوں کی خرید و فروخت کرنے والے امپورٹڈ گاڑیاں ان سے خریدتے ہیں جو باہر سے اپنے استعمال کے لیے گاڑیاں منگواتے ہیں۔‘
کراچی کے خالد بن ولید روڈ پر گاڑیوں کی خرید وفرخت کا کاروبار کرنے والے ایک شو روم مالک نے اردو نیوز کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان میں کئی شو روم مالکان اور بروکر گاڑیاں امپورٹ کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان گاڑیاں منگوانے کے لیے شو روم مالکان اور بروکر ایسے افراد کے کاغذات پر گاڑی منگواتے ہیں جو بیرون ممالک میں مقیم ہوتے ہیں۔ پاسپورٹ اور اپنی رہائش کی تفصیلات فراہم کرنے والے ان افراد کو شو روم مالکان اور بروکرز طے شدہ پیسے دیتے ہیں۔‘
’بیرون ممالک میں مقیم پاکستانی اپنے پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات شوروم مالکان یا بروکر کو فراہم کرتے ہیں اور ان کاغذات پر گاڑی کی نہ صرف خریداری کی جاتی ہے بلکہ انہیں پاکستان بھی منگوا لیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس معاملے پر ادارے حرکت میں آئے تھے تو کام کچھ عرصے کے لیے ٹھنڈا پڑا تھا لیکن جیسے ہی معاملات میں نرمی آئی یہ کام دوبارہ زور پکڑ گیا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’رقم کی ادائیگی گاڑی کی قیمت کے حساب سے طے کی جاتی ہے، اس کام کے لیے کئی بروکر مارکیٹ میں موجود ہیں جو بیرون ممالک مقیم افراد کو تلاش کرتے ہیں اور انہیں ان کی ڈیمانڈ کے حساب سے رقم کی ادائیگی کرتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق چھوٹی گاڑی کے لیے 25 سے 30 جبکہ بڑی گاڑی کے لیے 50 سے 65 ہزار روپے تک ادا کیے جا رہے ہیں۔‘