Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مزید شیڈو وار نہیں، اسرائیل پر حملہ حکمت عملی میں تبدیلی ہے: ایران

ایران 1979 سے اسرائیل کا مخالفت اور فلسطین کی حمایت کرتا آ رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
تہران کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل پر ڈرونز کے ذریعے حملہ نئی سخت حکمت عملی کا پہلا مظاہرہ تھا اور اس کا مقصد بڑے دشمن اسرائیل کو متنبہ کرنا تھا کہ مستقبل میں کسی بھی حملے براہ راست اور سخت ترین جواب دیا جائے گا۔‘
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ صورت حال پچھلے برسوں کے دوران ہونے والی ایک ڈرامائی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتی ہے جس میں ایران اور اسرائیل نے پراکسی لڑائی کے سائے میں مشرق وسطٰی میں خفیہ کارروائیاں کیں جبکہ کبھی کبھی اس کا دائرہ اس سے آگے بھی بڑھا۔
ایران نے دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر حملے کے جواب میں سنیچر کو رات گئے اپنی سرزمین سے اسرائیل پر سینکڑوں میزائل برسائے تھے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے ایران کی طرف چلائے جانے والے 99 فیصد میزائلوں کو راستے میں ہی تباہ کیا جس میں اس کو امریکہ اور دوسرے اتحادیوں کی مدد شامل تھی۔
اسرائیل کا یہ بھی موقف ہے کہ ’ایران کے حملوں کی وجہ سے معمولی نقصان ہوا۔‘
دوسری طرف ایران کی جانب سے کہا گیا کہ اس نے اسرائیل کو زبردست دھچکے لگائے ہیں اور اپنے آپریشن کو کامیاب قرار دیا۔
ایرانی صدر کے سیاسی نائب محمد جمشیدی نے ایکس پر لکھا کہ ’ایران کے کامیاب آپریشن کا مطلب یہ ہے کہ تزویراتی صبر کا دور ختم ہو گیا۔‘
 ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اب برابری تبدیل ہو گئی ہے، ایرانی اہلکاروں اور اثاثوں کو نشانہ بنانے والوں کو براہ راست اور انتہائی سخت جواب دیا جائے گا۔‘
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا کہنا ہے کہ ’اس آپریشن نے ایک نیا صفحہ کھول دیا ہے اور یہودی دشمن (اسرائیل) کو سبق سکھا دیا ہے۔‘

ایران نے سنیچر کی رات اسرائیل پر میزائل حملے کیے تھے (فوٹو: سبق)

ایران کا موقف ہے کہ اس کا اقدام دمشق میں قونصلیٹ پر حملے کے جواب میں اپنے دفاع کے لیے کیا گیا ہے جس میں پاسداران انقلاب کے سات اہلکار ہلاک ہو گئے تھے جن میں دو جنرلز بھی شامل تھے۔
مغربی ممالک کی جانب سے ایرانی کے جوابی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس سے خطے میں عدم استحکام آئے گا۔‘
تاہم ایران کا اصرار ہے کہ حملہ ’محدود‘ تھا اور مغربی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے معالے میں اس کے تحمل کی داد دے، جو سات اکتوبر کو غزہ پر حملے کے بعد سے اس نے دکھایا۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کی وجہ سے خطے میں تناؤ بڑھا ہے اور لببان، شام، عراق اور یمن میں ایرانی حمایت یافتہ مسلح گروپ بھی متحرک ہوئے ہیں۔
پاسداران انقلاب کے کئی ارکان جن میں سینیئر کمانڈرز بھی شامل ہیں، شام میں ہونے والے حملوں میں ہلاک ہوئے ہیں جن کا الزام ایران نے اسرائیل پر لگایا۔
ایران میں 1979 میں آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد سے ایران کثرت سے اسرائیل کی تباہی کا مطالبہ اور فلسطین کی حمایت کرتا رہا ہے اور فلسطینی کاز اس کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کئی دہائیوں سے خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے اور اسرائیل اور امریکہ کی راہ روکنے کے لیے اتحادی گروپوں کے نیٹ ورک پر انحصار کرتا آ رہا ہے۔
2020 میں واشنگٹن انسٹیٹیوٹ کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا ایران نے ’تزویراتی صبر‘ کی پالیسی اپنائی جس کا سلسلہ 1979 سے جاری ہے۔
اعتدال پسند سابق صدر حسن روحانی اس حکمت عملی کا سختی سے دفاع کرتے تھے، خصوصاً جب 2018 میں واشنگٹن نے ایران کے جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار لی تھی اور اس کے بعد حسن روحانی تہران کی جانب سے کسی قسم کے جوابی اقدامات نہ کرنے کی وکالت کی تھی۔
2020 میں کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد امریکی ذرائع کا کہنا ہے کہ تہران نے حملے سے قبل واشنگٹن کو خبردار کیا تھا۔
اس حملے میں عراق پر دو میزائل داغے تھے تھے جس سے کوئی فوجی ہلاک نہیں ہوا تھا۔

شیئر: