Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ شخص جس نے انڈیا کے امیر ترین خاندان کی بنیاد ڈالی، عامر خاکوانی کا کالم

دھیرو بھائی امبانی کا ایک بیٹا مکیش امبانی نے کامیابیاں حاصل کیں جبکہ دوسرے بیٹے انیل امبانی کو دیوالیہ پن کا سامنا کرنا پڑا۔ (فوٹو: ایکس)
 دھیرو بھائی ایک عجب پراسرار شخصیت کا حامل تھا۔ لوگ ان کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے۔ جب دھیرو بھائی لیجنڈ کا درجہ اختیار کر گئے تو بہت سے لوگ تفصیلی معلومات کیلئے ان کے آبائی گاؤں گئے۔
انہوں نے وہاں کے معمر شہریوں، شاطر دکانداروں اور ساحل پر بیٹھے ہوئے گپیں ہانکتے بابوں سے دھیرو بھائی کے بارے میں پوچھا۔ سب کا ردعمل ایک جیسا تھا۔ نام سن کر وہ چہک اٹھتے اور کہتے کیا دھیرو بھائی! ہاں وہ تو میرے سامنے ہی پلا بڑھا ہے۔ انہی گلیوں میں وہ لونڈا کھیلتا رہتا تھا۔ جب پوچھا جاتا کہ دھیرو بھائی کی شخصیت میں ان دنوں کیا خاص بات تھی تو خاموشی چھا جاتی۔ پھر کوئی بابا گلا کھنکارتے ہوئے کہتا، ’ہاں… کچھ… تھا تو صحیح اس میں،… مگر کیا یہ بتانا مشکل ہے۔ بہر حال وہ دوسروں سے مختلف ضرور تھا…‘ یوں ’تہلکہ خیز‘ معلومات حاصل کرنے کے خواہشمندوں کو مایوس واپس لوٹنا پڑا۔
 دھیرو بھائی کی زندگی کے بارے میں چند باتیں ہی منظر عام پر آئیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک نہایت غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ مالی حالات کی وجہ سے میٹرک تک تعلیم بھی حاصل نہیں کر سکا اور مجبوراً تلاش معاش کے لیے سرگرداں ہونا پڑا۔ یہی تلاش 16سالہ دھیرو کو عدن لے گئی جہاں وہ ایک پٹرول پمپ پر ملازم ہو گیا ۔کہتے ہیں کہ ایک دن وہ اپنی معمول کی مستعدی سے کام کر رہا تھا۔ ایک گاڑی میں جب اس نے تیل ڈالا تو گاڑی کے مالک نے اسے ایک بڑا نوٹ بطور ٹپ دیا۔ دھیرو نے ٹپ لینے سے انکار کر دیا۔ گاڑی کے مالک نے حیرت سے اسے دیکھا اور وجہ پوچھی تو پیسے دینے کی بجائے نوجوان پمپ بوائے نے جواباً ایک عجیب سوال کیا۔ اس نے کہا‘ سر! اگر آپ مجھے کچھ دینا چاہتے ہیں تو آپ یہ بتائیے کہ کونسا ایسا طریقہ ہے جس سے میں بھی ایسی گاڑی اور آپ جیسی حیثیت کا مالک بن جاؤں؟
یہ کہانی سنانے والے بتاتے ہیں کہ گاڑی کا مالک یہ سن کر گاڑی سے اترا‘ اس نے گہری نظروں سے دھان پان دھیرو کا جائزہ لیا اور پھر ایک نصیحت کی…ایسی نصیحت جس نے نہ صرف نوجوان دھیرو کی زندگی بدل دی بلکہ اس کے توسط سے بعد میں لاکھوںمزید زندگیاں بھی بدلیں۔ مرسیڈیز کے مالک نے کہا ’سنو نوجوان! میں چاہوں تو تمہاری انگلی پکڑ کر تمہیں سہارا دے سکتا ہوں۔ تمہاری زندگی بدل سکتا ہوں مگر پھر تم ساری زندگی میرے ہی سائے میں رہو گے‘تم کبھی بھی مجھ سے آگے نہ جا سکو گے۔ اگر تمہیں اپنی زندگی بنانی ہے تو اپنا راستہ خود تلاش کرو اور یاد رکھو کہ محنت کامیابی کی کنجی ہے۔ مگر صرف اندھا دھند محنت سے بھی قسمت نہیں بدلتی، دنیا بھر میں کروڑوں مزدور صبح سے شام تک محنت کرتے تمام زندگی گزار دیتے ہیں۔ تم محنت کرو مگر درست سمت میں اور مستقبل کا واضح نقشہ بنا کر۔ تب تم کامیاب رہو گے اور یہ بھی یاد رکھو کہ کوشش کی انتہا کا نام تقدیر ہے۔‘
 دھیرو بھائی کے حوالے سے یہ واقعہ بیسیوں بلکہ سینکڑوں لوگ سناتے ہیں، ہر کوئی اپنی یاداشت اور فہم کے مطابق ’نصیحت‘ کے الفاظ میں ردوبدل بھی کر دیتا ہے مگر اس پر سب متفق ہیں کہ اس نے دھیرو بھائی کی زندگی بدل دی…16سالہ کی عمر میں خالی جیب لے کر گھر سے نکلنے والا دھیرو بھائی جب 6 جولائی 2002 کو مرا تو وہ انڈیا کا سب سے بڑا سرمایہ کار تھا اور اس کے اثاثوں کی کل مالیت 550 ارب یعنی ساڑھے پانچ کھرب روپے تھی۔
دھیرو بھائی یعنی دھیرو بھائی امبانی… بھارت کے لیجنڈ کاروباری کی زندگی حیرتوں سے معمور ہے۔ 16سال کی عمر میں وہ ایک پٹرول پمپ پر معمولی ملازم تھا، مگر 24 سال کی عمر میں وہ برما شیل پروڈکٹس کا جنرل مینجر بن گیا۔ دھیرو بھائی جب عدن سے 1958 میں انڈیا واپس لوٹا تو اس نے ریلائنس کمرشل کارپوریشن کے نام سے ایک چھوٹی سی کمپنی قائم کی جس نے شروع میں مسالہ جات کی ایکسپورٹ کا کام شروع کیا۔
 ان دنوں دھیرو بھائی کے پاس دفتر کرایہ پر لینے کے پیسے نہیں تھے۔ اس نے ایک اچھوتا طریقہ سوچا اور ایک دفتر میں دو گھنٹے کی لنچ بریک کے دوران وہاں پڑی ایک میز کرائے پر لے لی۔ وہ لنچ بریک میں اس میز کو اپنا دفتر بنا لیتا اور اپنے ملاقاتیوں کو بھی اسی وقت بلاتا۔
ان دنوں انڈیا کی ایکسپورٹ امپورٹ پالیسی کی ایک شق کے مطابق صرف اتنی ہی مالیت کا سامان درآمد کیا جا سکتا تھا جتنا کہ برآمد کیا جاتا۔ دھیرو بھائی مسالے ایکسپورٹ کر کے اس کے عوض سنتھیٹک دھاگہ امپورٹ کرتا اور مقامی کمپنیوں کو فروخت کر دیتا، کیونکہ اس دھاگے کی ملک میں مانگ تھی۔
دھیرو بھائی کی ریلائنس کمپنی نے سرمایہ لگانے والوں کو معقول منافع دینے کی روایت ڈالی۔ انہوں نے جلد سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کر لیا اور مرتے دم تک اس بھروسے کو نقصان نہیں پہنچایا۔

1970ء میں پہلی بار ریلائنس کے شیئرز بازار میں فروخت کیے گئے تو شیئرز لینے والوں کی قطاریں لگ گئیں۔ (فوٹو: فیس بک)

1970ء میں پہلی بار ریلائنس کے شیئرز بازار میں فروخت کیے گئے تو شیئرز لینے والوں کی قطاریں لگ گئیں۔ حتٰی کہ پولیس کو بعض مقامات پر لاٹھی چارج بھی کرنا پڑا۔ دھیرو بھائی نے دنیا کی سب سے بڑی گراس روٹ ریفائنری لگائی، اس کمپنی کے حصص یافتگان کی تعداد دنیا کی کسی بھی کمپنی سے زیادہ تھی۔
حصص یافتگان کا سالانہ اجلاس فٹ بال کے سٹیڈیم میں کرایا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ ریلائنس کا کاروبار تیل، گیس، بجلی، ٹیلی کام، کپڑا، انشورنس اور فنانس تک پھیلتا گیا۔ جب دھیرو بھائی نے آخری سانسیں لیں تو ریلائنس انڈیا کا سب سے بڑا کاروباری گروپ بن چکا تھا جس کی کمپنیوں کا سالانہ کاروبار تقریباً 12ارب ڈالر جبکہ کام کرنے والے ملازمین کی تعداد 85 ہزار سے زائد تھی۔ یاد رہے کہ یہ تب کی بات ہے، آج تو ریلائنس کے اثاثے دس بیس گنا بڑھ چکے ہیں۔
 پیارے پڑھنے والوں آپ شاید یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے یہ سچی کہانی ان پاکستانی نوجوانوں کی رہنمائی کے لیے لکھی ہو گی جو کلرکی نہ ملنے پر خودکشی کر لیتے ہیں یا وہ کم ہمت ملازمین جو کسی دور دراز علاقہ میں تبادلہ ہونے پر پنکھے سے لٹک جاتے ہیں۔ کئی یہ بھی خیال کر سکتے ہیں کہ اس میں ہماری کاروباری اور سٹاک مارکیٹ کے بادشاہ گروں کے لئے کوئی نصیحت پوشیدہ ہے جو اپنے منافع کی خاطر پوری مارکیٹ الٹا دیتے ہیں۔
 دھیرو بھائی امبانی کی کہانی پڑھتے اور یہ کالم لکھتے وقت شاید یہ دونوں باتیں میرے ذہن میں تھیں مگر ایک اور نکتہ بھی ہے، وہ یہ کہ بعض اوقات ملک کا سسٹم اتنا مضبوط اور توانا ہوتا ہے جو بڑے بڑے صنعت کار اور غیر معمولی سرمایہ کار پیدا کرتا ہے۔
جہاں ایسا اچھا ماحول ملتا ہے کہ ایک یونیورسٹی ڈراپ آوٹ طالب علم فیس بک بنا کر کھرب پتی بن جاتا ہے، جہاں دو نوجوان مل کر دنیا کا سب سے بڑا سرچ انجن بنا ڈالتے ہیں اور اربوں ڈالر کماتے ہیں، جہاں ایسی بے شمار مثالیں اور بھی موجود ہیں۔
 کبھی مگر یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی ایک فرد اتنی بڑی کامیابیاں حاصل کر لیتا ہے کہ وہ پورے ملک کے کاروبار اور کاروباری رجحانات ہی بدل کر رکھ دیتا ہے۔ وہ ملک کے سسٹم کو نیچے سے اٹھا کر اتنا اوپر لے جاتا ہے جس کے بعد ایسے مزید کئی کاروباری معجزے وجود میں آئیں۔

دھیرو بھائی امبانی کا بیٹا مکیش امبانی ایشیا کے امیر ترین شخص ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس میں کوئی شک نہیں کہ دھیرو بھائی امبانی ایسا ہی ایک غیر معمولی کردار تھا۔ انڈیا میں ٹاٹا اور برلا جیسے بڑے کاروباری لیجنڈ موجود تھے، مگر دھیرو بھائی امبانی نے انڈین بزنس اور انڈسٹری کا پورا منظرنامہ ہی تبدیل کر کے رکھ دیا۔ دھیروبھائی امبانی سے پہلے کے انڈیا اور بعد کے انڈیا میں بہت بڑا فرق ہے۔ دھیرو بھائی پر بالی وڈ نے’گرو‘ کے نام سے ایک دلچسپ فلم بنائی ہے ، جس میں ابھیشک بچن نے دھیرو بھائی کا کردار ادا کیا، فلم میں اس کا نام گرو بھائی ہے۔
 دھیرو بھائی امبانی کی کہانی ایک فرد کی کہانی تھی، کہانی ہے… مگر یہ ایک قوم کی کہانی بھی ہو سکتی تھی،… ہو سکتی ہے۔
 افسوس کہ اپنے ملک میں ہم ایسا سازگار، موافق ماحول تیار نہیں کر سکے جس سے بڑے کاروباری افراد جنم لیں، جس میں سیلف میڈ لوگوں کے اوپر آنے کی جگہ ہو اور جہاں نئے آئیڈیاز پر کام کر کے حیران کن کامیابیاں حاصل کی جا سکیں۔ افسوس کہ ہم ایسے بڑے ویژن والے کاروباری بھی پیدا نہیں کر سکے جو ایک کمزور سسٹم کو مضبوط اور توانا بنائیں، جو ایسے نئے راستے کھوجیں، ایسے ٹرینڈ سیٹ کریں کہ انہیں فالو کرنے والے بھی کامیابی در کامیابی سے ہمکنار ہوں۔
 ہماری ناکامی اور مایوسی اس لئے زیادہ ہے کہ ہم دونوں اعتبار سے ناکام ہوئے۔ یہ سب مگر بدل بھی سکتا ہے۔ معجزے ، کرشمے آج بھی تخلیق ہوسکتے ہیں، ہماری مٹی بھی پڑوس کی طرح زرخیز ہی ہے۔ دیکھیں اپنی زندگیوں میں ہم ایسا کب دیکھ پائیں گے؟
 اور ہاں امبانی کہانی کا دوسرا حصہ بھی بڑا دلچسپ اور ڈرامائی نشیب وفراز لiے ہے۔ دھیرو بھائی امبانی کا ایک بیٹا مکیش امبانی نے حد درجہ کامیابیاں حاصل کیں جبکہ دوسرے بیٹے انیل امبانی کو دیوالیہ پن کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسا کیوں ہوا، یہ ایک الگ کہانی ہے، پھر کبھی سہی۔

 

شیئر: