چمن میں صورتحال تیسرے روز بھی کشیدہ، زخمیوں کی تعداد 48 تک پہنچ گئی
چمن میں صورتحال تیسرے روز بھی کشیدہ، زخمیوں کی تعداد 48 تک پہنچ گئی
جمعہ 7 جون 2024 17:52
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
سرحد پر پاسپورٹ پالیسی کے خلاف سات ماہ سے دھرنا جاری ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
افغانستان کی سرحد سے متصل بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے باعث صورتحال بدستور کشیدہ ہے۔ تین دنوں میں جھڑپوں کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 48 تک پہنچ گئی۔
کوئٹہ اور چمن کے درمیان ٹرین سروس معطل کردی گئی۔ حکام کا کہنا ہے کہ کوئٹہ کو چمن سے ملانے والی شاہراہ سمیت شہر کی تمام سڑکوں کو کلیئر کروا کے صورتحال پر قابو پا لیا گیا ہے۔
چمن میں پاک افغان سرحدی گزرگاہ پر آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط کے خلاف گزشتہ سال اکتوبر سے احتجاجی دھرنا جاری ہے تاہم دو روز قبل دھرنے کے شرکاء کی جانب سے پولیو مہم میں رکاوٹیں ڈالنے کے بعد مظاہرین اور سکیورٹی اہلکار آمنے سامنے آ گئے۔
انتظامیہ کی جانب سے دھرنے کے قائدین کی گرفتاری اور کوئٹہ چمن شاہراہ کی بحالی کے لیے کارروائی کے بعد صورتحال مزید کشیدہ ہو گئی۔ یہ شاہراہ مظاہرین نے چار مئی کو دو مظاہرین کی ہلاکت کے خلاف بند کر رکھی تھی جس کی وجہ سے افغانستان اور پاکستان کے درمیان ہر قسم کی تجارت معطل اور سینکڑوں مال بردار گاڑیاں پھنس گئی تھیں۔مظاہرین نے ایک ماہ سے نیشنل بینک، پاسپورٹ آف سمیت کئی سرکاری دفاتر کو بھی بند کرا رکھے ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق بدھ کو ایف سی قلعہ کے باہر احتجاج کے دوران مظاہرین ، پولیس اور ایف سی اہلکاروں کے درمیان تصادم شروع ہوا جس کے دوران لاٹھی چارج، آنسو گیس کی شیلنگ کے علاوہ فائرنگ بھی ہوئی جس میں دونوں جانب سے لوگ زخمی ہوئے۔
چمن کے مقامی صحافیوں کے مطابق جمعے کو بھی شہر میں صورتحال بدستور کشیدہ رہی۔ شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی ۔ کاروباری و تجارتی مراکز بند رہے۔
چمن کی ضلعی انتظامیہ کے ایک افسر کے مطابق شہر میں نیٹو مارکیٹ اور ایف سی قلعہ کے باہر دو مقامات پر دھرنے دیے گئے۔ ایف سی قلعہ کے باہر دھرنے کے شرکاء کو منتشر کرنے کے لیے ایف سی، پولیس، بلوچستان کانسٹیبلری اور لیویز اہلکاروں نے آپریشن کیا۔ آنسو گیس شیلنگ کے جواب میں مظاہرین نے سکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا۔
مقامی پولیس کے مطابق شیلنگ کے نتیجے میں تین مظاہرین منظور احمد، محمد طارق اور گران اچکزئی زخمی ہوگئے جبکہ مظاہرین کے پتھراؤ سے پولیس کی گاڑی کے شیشے ٹوٹ گئے اور اس کا ڈرائیور احمد خان معمولی زخمی ہو گیا۔
چمن اور کوئٹہ کے ہسپتالوں سے حاصل کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق تین دنوں کے دوران اب تک مجموعی طور پر 30 مظاہرین کو زخمی حالت میں ہسپتال لایا گیا ہے۔ ان میں عبدالنافع، امداد اللہ، نصیب اللہ، شمس اللہ،اسداللہ، حمید اللہ، فیض اللہ، عبدالہادی، قدرت اللہ، عزت اللہ، حبیب اللہ،بلال، میر علی، حمداللہ، اسداللہ اچکزئی ، امیر محمد، زین اللہ، عبداللہ، عزیز اللہ، حضرت اللہ، رمضان، عصمت اللہ ، صادق، ولی محمد، غوث اللہ، عنایت اللہ، امان اللہ ،مولاداد ،منظور احمد، محمد طارق اور گران شامل ہیں۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل ژوب ریجن معروف صفدر واہلہ کا کہنا ہے کہ ایس پی چمن، اسسٹنٹ کمشنر صدر اور اسسٹنٹ کمشنر سٹی کی قیادت میں پولیس اور لیویز نے ملکر آپریشن کر کے شہر کی تمام سڑکوں کو کلیئر کرادیا ہے ۔کوئٹہ کو چمن سے ملانے والی شاہراہ جو ایک ماہ سے مظاہرین کی جانب سے بند کی گئی تھی کو بھی بحال کردیا گیا ہے۔ قریبی اضلاع سے اضافی نفری طلب کرکے صورتحال پر قابو پا لیا گیا ہے۔
اردو نیوز سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے ڈی آئی جی ژوب نے بتایا کہ پولیس اور لیویز کی جانب سے کوئی فائرنگ نہیں کی گئی۔ صرف سڑکیں بند کرنے والے افراد کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا گیا جس میں کچھ مظاہرین زخمی ہوئے۔ کچھ مظاہرین کو پولیس نے گرفتار بھی کیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ اور تشدد سے اب تک 18 پولیس اہلکار زخمی ہو چکے ہیں۔
ڈی آئی جی معروف صفدر واہلہ کا کہنا تھا کہ مظاہرین میں شامل بعض منفی عناصر صورتحال کو خراب کرنا چاہتے ہیں ان میں غیرملکی بھی شامل ہیں تاہم حکومت کسی کو قانون ہاتھ میں لینے نہیں دے گی۔
چمن سے بلوچستان اسمبلی کے سابق رکن عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ چمن میں کرفیو سے بھی بد تر صورتحال ہے، شہریوں کو یرغمال بنایا گیا ہے، سکیورٹی فورسز مظاہرین کے خلاف بے جا طاقت کا استعمال کر رہی ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ زخمی مظاہرین کی تعداد چالیس سے زائد ہیں۔ دھرنے کے قائدین سمیت بیس سے زائد مظاہرین سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد سے لاپتہ ہیں۔
اصغر خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی بجائے حکومت کی جانب سے پشتون عوام اور پرامن مظاہرین پر طاقت کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔ پہلے ہمارے لوگوں کا دہشتگردی، انتہاء پسندی اور بدامنی کے نتیجے میں جانی نقصان کیا گیا اب ان کا معاشی قتل کیا جا رہا ہے۔
ادھر چمن میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر مبینہ تشدد کے خلاف کوئٹہ میں عوامی نیشنل پارٹی، پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی، پشتون تحفظ موومنٹ اور نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کی جانب سے مشترکہ احتجاجی ریلی نکالی گئی جس کی قیادت اے این پی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی، پی نیپ کے رہنما عبدالقادر آغا، پی ٹی ایم کے نور باچا اور این ڈی ایم کے احمد جان نے کی۔ریلی کے شرکاء نے پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔
احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے چاروں جماعتوں کے رہنماؤں نے چمن میں مظاہرین کے خلاف حکومتی کارروائی کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ افغان سرحد پر مقامی لوگوں کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط کے خاتمے سمیت مظاہرین کے تمام مطالبات فوری منظور کیے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چمن کے لوگوں کا انحصار سرحد پر ہے 70 برس بعد اچانک سخت پابندیاں لگا کر لاکھوں لوگوں سے روزگار چھین لیا گیا ہے، دونوں جانب کے سرحدی علاقے کے لوگوں کو آمدروفت میں آسانیاں فراہم کی جائیں۔