Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چمن میں صورتحال معمول پر، بینک و سرکاری دفاتر 37 روز بعد کُھل گئے

’چمن میں سرکاری دفاتر اور بینکوں کے باہر اضافی سکیورٹی تعینات کر دی گئی ہے‘ (فوٹو: آئی لو چمن فیس بُک)
افغانستان سے متصل بلوچستان  کے سرحدی شہر چمن میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے بعد صورت حال معمول پر آگئی۔ شہر میں 37 دنوں سے بند نادرا، پاسپورٹ آفس، بینک اور دیگر دفاتر کھل گئے۔
چمن میں ایک ہفتہ قبل صورت حال اس وقت کشیدہ ہوگئی تھی جب دھرنے کے شرکا کی جانب سے پولیو مہم میں رکاوٹیں ڈالنے کے بعد انتظامیہ نے دھرنے کی قیادت کو گرفتار کرلیا اور مظاہرین کی جانب سے ایک ماہ سے بند کی گئی کوئٹہ چمن شاہراہ کو کھولنے کے لیے سکیورٹی فورسز نے کارروائی کی۔
اس دوران ایف سی قلعہ کے باہر احتجاج کرنے والے مظاہرین اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان جھڑپوں میں کم سے کم 50 مظاہرین اور سکیورٹی اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔
سکیورٹی فورسز نے غوث اللہ اور صادق اچکزئی سمیت دھرنا کمیٹی کے اہم عہدے داروں کو گرفتار کر رکھا ہے۔
چمن میں حکومت پاکستان کی جانب سے پاکستان افغانستان سرحد پر پاسپورٹ اور ویزے کی شرط کے اطلاق کے خلاف 21 اکتوبر 2023 سے بارڈر پر کام کرنے والے مزدوروں اور چھوٹے تاجروں کی جانب سے دھرنا دیا جا رہا ہے۔
4 مئی کو چمن میں سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں دو افراد کی ہلاکت کے خلاف دھرنے کے شرکا نے کوئٹہ چمن شاہراہ کے ساتھ ساتھ پاسپورٹ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سمیت کئی سرکاری دفاتر، نجی و سرکاری بینکوں کو احتجاجاً بند کردیا تھا۔
بینک بند ہونے کی وجہ سے شہریوں خاص کر سرکاری ملازمین کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
متحدہ ملازمین فیڈریشن چمن کے صدر عبدالمنان اچکزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ سکولوں اور ہسپتالوں سمیت سرکاری محکموں کے تقریباً پانچ  ہزار ملازمین نے گذشتہ ماہ کی تنخواہ اب تک وصول نہیں کی۔ بینک بند ہونے کے ساتھ ساتھ اے ٹی ایم بھی بند تھیں جس کی وجہ سے رقم نکالنا مشکل ہوگیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے  بیشتر سرکاری ملازمین بچوں کے لیے عید کے کپڑے تک نہیں خرید سکے۔ ہم نے انتظامیہ اور دھرنا کمیٹی سے بار بار درخواست کی۔‘

شرکا نے گرفتار رہنماؤں کی رہائی کے لیے 13 جون کو چمن میں احتجاجی ریلی نکالنے کا اعلان کیا ہے (فوٹو: حضرت علی)

’آخر کار آج بدھ کو تقریباً 37 دنوں بعد چمن میں بینک کُھل گئے ہیں اور ملازمین نے تنخواہیں لینا شروع کردی ہیں۔ امید ہے دھرنے کے شرکا ملازمین کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے رکاوٹیں نہیں ڈالیں گے۔‘
چمن کے صحافی نعمت اللہ سرحدی نے بتایا کہ شہر میں موبائل انٹرنیٹ سروس بدستور معطل ہے، تاہم ایک ہفتے کے بعد مجموعی صورت حال بہتر ہوگئی ہے۔‘
’بینک اور کئی سرکاری دفاتر بھی 37 روز بعد کھل گئے ہیں، تاہم دھرنے کے سٹیج سے اب بھی بینک بند کرانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے سرکاری ملازمین پریشان ہیں۔
ڈپٹی کمشنر چمن راجا اطہر عباس کا کہنا ہے کہ اس وقت صورت حال حکومت کے قابو میں ہے، سرکاری دفاتر اور بینکوں کے باہر اضافی سکیورٹی تعینات کر دی گئی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ احتجاج میں شامل تخریب کار عناصر نے شہر کو یرغمال بنا رکھا تھا ، ایف سی قلعہ، نادرا، پاسپورٹ، نیشنل بینک، پریس کلب اور سرکاری دفاتر پر حملے کیے گئے، پولیو ٹیموں کو بھی نشانہ بنایا گیا جس کی وجہ سے حکومت کو مجبوراً طاقت کا استعمال کرنا پڑا۔
دوسری جانب دھرنے کے شرکا نے گرفتار رہنماؤں کی رہائی کے لیے 13 جون کو چمن میں احتجاجی ریلی نکالنے کا اعلان کیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر کمشنر چمن کا کہنا ہے کہ پرامن احتجاج پر کوئی قدغن نہیں، تاہم اس کی آڑ میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور کارِ سرکار میں مداخلت کرنے والوں کے ساتھ رعایت نہیں برتی جائے گی۔

شیئر: