Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئینی ترامیم کے لیے جوڑ توڑ: ’دو ہزار مسنگ پرسنز کو رہا کریں تو میرا ووٹ آپ کا‘

عدالتی اصلاحات سے متعلق آئینی ترامیم کے حوالے سے حکومت اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن کی مختلف جماعتوں کے درمیان جوڑ توڑ اور رابطے عروج پر پہنچ چکے ہیں۔
جمیعت علمائے اسلام کے جنرل سیکریٹری عبدالغفور حیدری نے کہا کہ حکومت نے آئینی ترمیم کے بل کا مسودہ ہمارے ساتھ شیئر نہیں کیا۔
میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حکومتی وفد سے کہا ہے کہ بل پیش کرنے میں جلدی نہ کریں۔
’ہم نے کہا اجلاس میں شریک ہوں گے وہاں اپنا موقف دیں گے۔ بل پڑھے بغیر کیسے رائے دیں؟‘
دوسری جانب وفاقی کابینہ، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے آج ہونے والے اجلاس بھی تاخیر کا شکار ہیں۔
تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں آئینی ترامیم پیش کرنے کے لیے حکومت کے اپنی اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن کے ساتھ رابطے جاری ہے۔
اتوار کے روز اس سلسلے میں سب سے پہلا رابطہ ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار اور وزیرِ قانون نے بلاول بھٹو زرداری سے کیا۔ دونوں نے پارلیمنٹ ہاؤس میں بلاول بھٹو زرداری کے چیمبر میں جا کر ان سے ملاقات کی اور آئینی ترامیم کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا جس کے بعد حکومتی وفد سپیکر آفس چلا گیا جہاں مزید تبادلہ خیال ہوا۔
اسی دوران حکومت نے ایم کیو ایم اور دیگر اتحادی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیا اور ان کے رہنماؤں کو آئینی ترمیم کے مسودے پر تفصیلی بریفنگ دی۔
مولانا فضل الرحمان نے اپنی رہائش گاہ پر پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلایا جہاں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان موجود تھے اسی دوران حکومتی وفد اسحاق ڈار کی سربراہی میں ان کی رہائش گاہ پر پہنچا اور انہیں تفصیلی بریفنگ دی۔
اس سے قبل مولانا فضل الرحمان کی خواہش پر حکومت نے ان کی جماعت سے آئینی ترمیم کا مسودہ بھی شیئر کیا تھا جس پر انہوں نے اپنی پارٹی کے اندر اور دیگر آئینی ماہرین سے مشاورت بھی کی اور اپنی تجاویز بھی دیں۔
جمیعت علمائے اسلام کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے بھی ملاقات کی اور بعض ترامیم پر تبادلہ خیال کیا۔

حکومتی وفد نے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی۔ (فوٹو: سکرین گریب)

بلاول بھٹو زرداری نے پیپلز پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی بھی صدارت کی جس میں آج کے اجلاس کی حکمت عملی اور آئینی ترامیم کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔
قومی اسمبلی کا اجلاس دن ساڑھے 11 بجے جبکہ سینیٹ کا اجلاس چار بجے طلب کیا گیا تھا لیکن قومی اسمبلی کے اجلاس کا وقت تبدیل کرتے ہوئے چار بجے جبکہ سینیٹ کے اجلاس کا وقت سات بجے کر دیا گیا۔ وفاقی کابینہ کا اجلاس تین بجے ہونا تھا لیکن تادم تحریر یہ اجلاس شروع نہیں ہو سکا۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ آئینی ترامیم کے حوالے سے ان کے نمبرز پورے ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب سینیٹ میں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے دو سینیٹرز کے ووٹ انتہائی اہمیت اختیار کر گئے ہیں اور اطلاعات کے مطابق بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے ترامیم کے حق میں ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد حکومتی سطح پر اختر مینگل سے رابطے جاری ہیں۔
صحافی حامد میر کی ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے لکھا کہ ’جی، یہ میرا مطالبہ ہے۔ 2000 لوگوں کو فوری طور پر رہا کریں اور میرا ووٹ آپ کا ہے۔‘

مسلم لیگ ن کے صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعظم شہباز شریف کے صاحبزادے ممبر قومی اسمبلی حمزہ شہباز بھی اسلام آباد پہنچ چکے ہیں جبکہ تمام پارلیمانی جماعتوں نے اپنے اپنے ارکان کو پارلیمنٹ پہنچنے کی ہدایات دے رکھی ہیں۔
حکومتی جماعتوں نے اپنے ارکان کو ترمیم کے حق میں جبکہ اپوزیشن جماعت بالخصوص تحریک انصاف نے اپنے ارکان کو ترامیم کی مخالفت میں ووٹ دینے کے لیے باضابطہ ہدایات بھی جاری کر دی ہیں۔

شیئر: