Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’فائنل کال‘ سے ’پسپائی‘ کی رات تک، یہ سب کیا ہوا؟

صوابی سے آئے ایک کارکن نے بتایا کہ اُن کو 26 نمبر چونگی پر مشکل کا سامنا رہا۔ فوٹو: اردو نیوز
بدھ 27 نومبر کی صبح دفتر جاتے ہوئے ایک نگاہ اسلام آباد کے معروف تجارتی مرکز بلیو ایریا کے سامنے گزرتی جناح ایونیو پر ڈالی تو جہاں گزشتہ شام ’فائنل کال‘ پر آنے والے مظاہرین تھے وہاں جلے کنٹینرز کی راکھ اُڑ رہی تھی اور ٹوٹی گاڑیوں کی ونڈ سکرین کی کرچیاں پڑی تھیں۔
تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کو ’جیل سے رہائی‘ دلانے کے نعرے لگانے والے پُرجوش ہجوم کو رات کی تاریکی میں ہی ‘بھگانے‘ کا کریڈٹ تو حکومتی وزرا رات کو ہی لے چکے تھے مگر اس ’پسپائی‘ پر صُبح تک پی ٹی آئی کی قیادت کسی وضاحت سے ’خود کو مطمئن‘ کرنے نہ آئی۔
نومبر کی 24 تاریخ کو ’فائنل کال‘ کے نام پر نکلنے والے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو حکومتی ترجمان ’انتشاری‘ قرار دیتے رہے اور 26 کی شام جب بلیو ایریا میں سیونتھ ایونیو میٹرو سٹیشن کے ٹریک پر کھڑے ایک کارکن سے گفتگو کی تو 26 سالہ نوجوان خود کو ’انقلابی‘ بتا رہا تھا۔
ایسا نہیں کہ احتجاج میں شامل ہونے والا ہر ’انصافی‘ اسلام آباد میں ’انقلاب‘ لانے آیا تھا۔ پشتو بولنے اور سمجھنے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے منگل کی شام خیبر پختونخوا سے آئے متعدد کارکنوں سے گفتگو کی۔
بلیو ایریا میں علی امین گنڈاپور کی گاڑی کو چاروں طرف سے گھیرے اور چھت پر اچھلتے کودتے نوجوان اگر آگے بڑھنے کا کہہ رہے تھے تو ضلع کرک سے آئے ایک 32 سالہ کارکن کا نہایت سنجیدگی سے کہنا تھا کہ نہیں، یہاں تک ٹھیک ہے اور ہمیں قیادت کی بات ماننی چاہیے۔‘
صوابی سے آئے ایک اور کارکن نے بتایا کہ اُن کو 26 نمبر چونگی پر مشکل کا سامنا رہا مگر موٹروے پر کٹی پہاڑی کے مقام پر جیسی شیلنگ سے نکلے وہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ 22 سالہ نوجوان نے بتایا کہ وہ دو راتوں سے سویا نہیں ہے۔
خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے آئے ایک جوشیلے نوجوان نے دیگر دو مظاہرین کی سنجیدہ گفتگو میں خلل ڈالا اور کہا کہ ’اگر آگے نہیں جائیں گے تو یہ حکومت کیسے ختم ہوگی، انقلاب کیسے آئے گا؟‘
بلیو ایریا میں سڑک کے آنے جانے والے دونوں ٹریک مظاہرین اور اُن کو لانے والی گاڑیوں سے پُر تھے اور درجنوں وین اور بسیں فیصل ایونیو پر زیرو پوائنٹ پر بھی کھڑی تھیں، شاید رات کی ’پسپائی‘ میں سب سے زیادہ فائدے میں اُن ہی کے ڈرائیور رہے ہوں گے۔
بدھ کی سہ پہر جب مظاہرین کی بڑی تعداد جناح ایونیو پر ڈیرے ڈال چکی تھی تو ایمبیسی روڈ کے ذریعے ایکسپریس چوک تک جانے کی ہماری کوشش کو پولیس اہلکاروں کی جانب سے گلیوں سے نکلتے مقامی ‘تماشائی کارکنوں‘ پر کیے گئے پتھراؤ نے ناکام بنا دیا اور تین دیگر صحافی ساتھیوں کے ہمراہ گاڑی کی چھت پر ’پتھر کھانے کے بعد‘ بمشکل بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
اس کے بعد پولی کلینک کے راستے چائنہ چوک میں احتجاجی کارکنوں اور پولیس کے آمنے سامنے آنے کو رپورٹ کرنے کے لیے وہاں کا رُخ کیا تو آنسو گیس کے حلق، نتھنوں اور آنکھوں کو جلاتے ’ذائقے‘ نے آگے بڑھنے سے روک دیا۔
شام تک پی ٹی آئی کے کارکنوں کا سب سے زیادہ ہجوم جناح ایونیو پر کلثوم انٹرنیشنل ہسپتال کے سامنے تھا اور یہی وہ ’محفوظ مقام‘ تھا جہاں عمران خان کی اہلیہ کی گاڑی اور وزیراعلیٰ گنڈاپور کا ‘پروٹوکول اور سرکاری سکیورٹی قافلہ‘ پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا۔

دونوں کی گاڑیوں کا رُخ ڈی چوک کی جانب تھا مگر جب رات کو رینجرز، ایف سی اور پولیس نے ’گرینڈ آپریشن‘ شروع کیا تو سب سے پہلے یہی گاڑیاں اس لیے آگے نکلیں کہ ڈرائیور اپنی نشستوں پر تھے۔
تحریک انصاف کے گزشتہ کئی احتجاجی ریلیوں اور دھرنوں کے مقابلے میں یہ پہلا قافلہ تھا جہاں بظاہر کارکن اپنی قیادت پر حاوی تھے اور یہ ایک ’لیڈرلیس‘ یا بغیر کسی قیادت کے ’ہجوم‘ بن چکا تھا۔
یہ احتجاج کامیاب رہا یا ناکام، اس سے تحریک انصاف نے کیا حاصل کیا اور حکومت کے دعوے کس حد تک درست ہیں اس پر تو ہر ایک اپنی رائے، تجزیے اور تبصرے میں مختلف عوامل کا ذکر کرتے ہوئے اپنے نتائج نکالنے میں آزاد ہے مگر اس دوران تین رینجرز اہلکاروں، ایک پولیس سپاہی اور ایک عام شہری کی موت 25 کی شام تک تصدیق ہو چکی تھی۔
تحریک انصاف کی قیادت بھی ’درجنوں‘ کارکنوں کی اموات کا دعوی کر رہی ہے۔ مگر ایک سیاسی احتجاج میں کیا کسی ایک انسان/ شہری کی موت بھی المیہ نہیں، خواہ وہ کارکن ہو یا سکیورٹی اہلکار۔
جن گھروں میں میت آئی اُن کے لیے رہتی زندگی ایسے احتجاج جانے والوں کی یاد کی بُجھتی راکھ میں چنگاری لگاتے رہیں گے۔

شیئر: