شامی فوج جوابی کارروائی کے لیے ’عارضی طور پر‘ حلب سے پسپا
باغیوں کا یہ حملہ صدر بشار الاسد کے لیے حالیہ برسوں میں سب سے بڑا چیلنج ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
شامی فوج نے کہا ہے کہ شمال مغربی شام پر عسکریت پسندوں کے ایک حملے میں اس کے درجنوں سپاہی ہلاک ہو گئے ہیں، اور جنگجو حلب شہر کے بڑے حصوں میں داخل ہونے میں کامیاب ہو چکے ہیں جن کی وجہ سے فوج کو دوبارہ تعینات کرنا پڑا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق شامی فوج نے سنیچر کو اپنے بیان میں پہلی بار عوامی سطح پر اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اسلامسٹ حیات تحریر الشام کی قیادت میں باغی اس ہفتے کے شروع میں اچانک حکومت کے زیرِقبضہ شہر حلب پر حملہ کرتے ہوئے اس میں داخل ہو گئے۔
فوج نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’دہشت گردوں کی بڑی تعداد اور کثیرالجہتی جنگی محاذوں نے ہماری مسلح افواج کو دوبارہ تعیناتی پر مجبور کیا جس کا مقصد دفاعی خطوط کو مضبوط بنانا ہے تاکہ حملے کے اثرات کو کم کیا جا سکے، شہریوں اور فوجیوں کی جانیں بچائی جا سکیں اور جوابی حملے کی تیاری کی جا سکے۔‘
باغیوں کا یہ حملہ صدر بشار الاسد کے لیے حالیہ برسوں میں سب سے بڑا چیلنج ہے، جس نے شام کی خانہ جنگی کے محاذ کو پھر گرم کر دیا ہے جو سنہ 2020 سے بڑی حد تک منجمد ہو چکا تھا۔
شامی فوج نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ باغی اپنے ٹھکانوں پر فوج کی مسلسل بمباری کی وجہ سے حلب شہر میں اپنے قدم نہیں جما سکے۔
قبل ازیں شامی فوج کے دو ذرائع کا کہنا تھا کہ روسی اور شامی طیاروں نے سنیچر کو حلب کے مضافات میں باغیوں کو نشانہ بنایا۔ روس نے سنہ 2015 میں شام کی خانہ جنگی میں بشار الاسد کی مدد کے لیے اپنی فضائیہ کو شام میں تعینات کیا تھا۔ اس خانہ جنگی کا آغاز سنہ 2011 میں ہوا تھا۔
باغی فورس اس ہفتے کے اوائل میں حیرت انگیز کارروائی کرتے ہوئے حکومت کے زیرِقبضہ قصبوں سے گزرتے ہوئے تقریباً ایک دہائی بعد حلب پہنچی۔ روس اور ایران کی حمایت یافتہ حکومتی افواج نے عسکریت پسندوں کو شہر سے باہر نکال دیا تھا۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے جمعے کو کہا تھا کہ ماسکو عسکریت پسندوں کے حملے کو شام کی خودمختاری کی خلاف ورزی سمجھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم شامی حکام کے حق میں ہیں کہ وہ علاقے میں امن قائم کریں اور جلد از جلد آئینی نظام بحال کریں۔‘