Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنگ بندی پر عمل، اسرائیل نے 90 فلسطینی جبکہ حماس نے تین اسرائیلی رہا کر دیے

جنگ بندی کے بعد اسرائیل کے مزید 100 افراد کی واپسی کی امیدیں بھی پیدا ہو گئی ہیں (فائل فوٹو: اے پی)
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کے پہلے مرحلے میں حماس نے اسرائیل کے تین یرغمال افراد کو واپس کر دیا ہے جس کے جواب میں 90 فلسطینیوں کو بھی رہا کیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے بعد 15 ماہ سے جاری شدید لڑائی میں ایک وقفہ آیا ہے تاہم اگلے چھ ہفتوں میں معاہدے کے مزید نکات پر عمل ایک چیلنج ہو گا۔
غزہ کے شہری اب اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں جبکہ امدادی ٹرکوں کی ایک کھیپ بھی تباہ حال علاقے میں داخل ہو گئی ہے۔
اتوار کی صبح سے شروع ہونے والی جنگ بندی کے بعد اسرائیل کے 100 افراد کی واپسی کی امیدیں بھی پیدا ہو گئی ہیں جنہیں سات اکتوبر 2023 کے حملے کے دوران حماس نے یرغمال بنا لیا تھا۔
لیکن یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ چھ ہفتوں کے بعد آیا یہ لڑائی دوبارہ شروع ہو جائے گی یا پھر امن کا وقفہ مزید طویل ہو گا۔
پہلے مرحلے میں حماس نے تین اسرائیلی خواتین 28 سالہ ایملی دماری، 24 سالہ رومی گونین اور 31 سالہ ڈیرن سٹینبیکر کو غزہ کی ایک سڑک پر ریڈ کراس کے حوالے کیا۔
یرغمال خواتین کی حوالگی کی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کے اردگرد ہزاروں افراد موجود ہیں جبکہ وہاں سروں پر سبز پٹیاں باندھے حماس کے مسلح جنگجو بھی کھڑے ہیں۔
تینوں اسرائیلی خواتین کو پہلے اسرائیلی فورسز تک اور پھر اسرائیل پہنچایا گیا جہاں وہ اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ گلے مل کر روتی رہیں۔ اس دوران ایملی دماری کو اپنا پٹی والا ہاتھ اٹھا کر فتح کا نشان بناتے ہوئے دیکھا گیا۔
فوج کا کہنا ہے کہ حماس کے سات  اکتوبر کے حملے میں ایملی دماری کے ہاتھ کی دو انگلیاں ضائع ہو گئی تھیں۔

فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بعد جشن میں ’اللہ اکبر‘ کے نعرے بلند کیے گئے (فائل فوٹو: اے پی)

اس موقعے پر اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے تینوں خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’پوری قوم آپ کا خیرمقدم کر رہی ہے۔‘
یرغمال اسرائیلی خواتین کی واپسی کے سات گھنٹے بعد 90 فلسطینی قیدیوں کو بھی رہا کر دیا گیا۔
اسرائیل نے ان افراد کو اپنی سکیورٹی کے لیے خطرہ قرار دے کر حراست میں لیا تھا۔ ان افراد پر سنگ باری یا اقدام قتل کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
مغربی کنارے پر قابض اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کو عوامی سطح پر جشن منانے سے متعلق خبردار کیا تھا اور قیدیوں کو بھی رات ایک بجے رہا کیا، لیکن لوگوں کی بڑی تعداد وہاں بھی پہنچ گئی اور حماس کے جنگجوؤں سمیت کچھ افراد نے ہاتھوں میں پرچم بھی تھام رکھے تھے۔
فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بعد جشن میں ’اللہ اکبر‘ کے نعرے بلند کیے گئے اور شہریوں نے رہا ہونے والے افراد کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔
فلسطین کے رہا ہونے والے شہریوں میں سب سے نمایاں 62 سالہ خالدہ جرار ہیں۔ وہ بائیں بازو کے اس سکیولر دھڑے سے تعلق رکھتی ہیں جس نے سنہ 1970 میں اسرائیل کے خلاف کارروائیاں کی تھیں اور بعد میں مسلح تحریک سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔
خالدہ جرار کو سنہ 2023 کے اواخر میں ایک خصوصی انتظامی آرڈر کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسرائیل کے اس اقدام پر سخت تنقید کی تھی۔

 

شیئر: