Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اسرائیلی فوج جنگ بندی معاہدے کے بعد بھی غزہ بفر زون اپنے پاس رکھے گی‘

اسرائیلی حملے میں اب تک کم از کم 51,000 فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے بدھ کے روز کہا کہ اسرائیلی افواج غزہ میں بنائی گئی بفر زون میں جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے کسی بھی معاہدے کے بعد بھی موجود رہیں گی۔
تاہم جنگ ختم کرنے کے لیے جنگ بندی معاہدے کو بحال کرنے کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔
گذشتہ ماہ آپریشن دوبارہ شروع کرنے کے بعد سے اسرائیلی افواج نے غزہ میں ایک وسیع ’سکیورٹی زون‘ قائم کر لیا ہے، جس کے نتیجے میں 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو جنوب اور ساحلی علاقوں میں محدود کر دیا گیا ہے۔
کاٹز نے فوجی کمانڈروں سے ملاقات کے بعد ایک بیان میں کہا کہ ’ماضی کے برعکس، آئی ڈی ایف ان علاقوں کو خالی نہیں کر رہی جو صاف اور قبضے میں لے لیے گئے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’غزہ کے دسیوں فیصد کو اس زون میں شامل کر لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’آئی ڈی ایف سکیورٹی زونز میں دشمن اور ہماری آبادیوں کے درمیان ایک بفر کے طور پر، کسی بھی عارضی یا مستقل صورتحال میں، غزہ میں موجود رہے گی، جیسا کہ لبنان اور شام میں ہے۔‘
صرف جنوبی غزہ میں اسرائیلی افواج نے تقریباً 20 فیصد حصے پر قبضہ کر لیا ہے جس کے بعد رفح سرحدی شہر پر کنٹرول حاصل کیا ہے اور اندرونی علاقے میں ’مورگ کاریڈور‘ تک پہنچ چکی ہیں، جو رفح اور خان یونس کے درمیان مشرقی کنارے سے بحیرہ روم تک جاتا ہے۔
اسرائیل پہلے ہی نیٹزاریم کے وسطی علاقے میں ایک وسیع کوریڈور پر قابض ہے اور اس نے سرحد کے اردگرد کئی سو میٹر اندر تک ایک بفر زون قائم کیا ہے، جس میں شمال میں غزہ شہر کے مشرق میں واقع شجاعیہ علاقہ بھی شامل ہے۔

ایم ایس ایف نے کہا ہے کہ غزہ ایک ’اجتماعی قبر‘ بن چکا ہے اور انسانی امدادی تنظیمیں کو امداد کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کی افواج نے حماس کے سینیئر کمانڈروں سمیت سینکڑوں جنگجو مار دیے ہیں، لیکن اقوام متحدہ اور یورپی ممالک اس آپریشن پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہیومینیٹیرین ایجنسی اوچا کے مطابق 18 مارچ کو دوبارہ لڑائی شروع ہونے کے بعد سے چار لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں، اور اسرائیلی فضائی حملوں اور گولہ باری سے کم از کم 16 سو 30 افراد مارے جاچکے ہیں۔
طبی فلاحی تنظیم ایم ایس ایف نے کہا ہے کہ غزہ ایک ’اجتماعی قبر‘ بن چکا ہے اور انسانی امدادی تنظیمیں کو امداد کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
ایم ایس ایف کی ایمرجنسی کوآرڈینیٹر امانڈے بازیرول نے کہا کہ ’ہم حقیقت میں غزہ کی وری آبادی کی تباہی اور زبردستی بے دخلی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔‘
 اسرائیلی وزیر دفاع کاٹز نے کہا کہ اسرائیل، جو علاقے میں امداد کی ترسیل کو روک چکا ہے، مستقبل میں شہری کمپنیوں کے ذریعے امداد کی تقسیم کے لیے انفراسٹرکچر بنا رہا ہے۔ تاہم ان کے مطابق امداد پر عائد پابندی بدستور برقرار رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل ایک منصوبے کو آگے بڑھائے گا جس کے تحت غزہ کے باشندوں کو علاقہ چھوڑنے کی اجازت ہوگی۔ تاہم ابھی تک واضح نہیں کہ کون سے ممالک بڑی تعداد میں فلسطینیوں کو قبول کرنے پر تیار ہوں گے۔

اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ فوجی دباؤ میں اضافے سے حماس یرغمالیوں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کاٹز کے یہ بیانات، جس میں انہوں نے حماس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ دہرایا، اس بات کو اجاگر کرتے ہیں کہ فریقین جنگ بندی کے کسی بھی معاہدے سے ابھی تک دور ہیں، حالانکہ مصری ثالث جنگ بندی معاہدہ بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حماس نے بارہا ہتھیار ڈالنے کے مطالبے کو خود کے لیے ’سرخ لکیر‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اسے کبھی قبول نہیں کرے گی۔ حماس کا کہنا ہے کہ کسی بھی مستقل جنگ بندی کے تحت اسرائیلی فوج کو غزہ سے نکلنا ہو گا۔
حماس نے بدھ کے روز ایک بیان میں کہا کہ ’ایسی کوئی بھی جنگ بندی جس میں جنگ کو روکنے، مکمل انخلا، محاصرہ ختم کرنے اور تعمیر نو کے آغاز کی حقیقی ضمانتیں شامل نہ ہوں، ایک سیاسی جال ہو گی۔‘
دو اسرائیلی حکام نے اس ہفتے کہا کہ مذاکرات میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے گوکہ میڈیا رپورٹس میں ممکنہ جنگ بندی کا ذکر کیا گیا تھا۔
اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ فوجی دباؤ میں اضافے سے حماس یرغمالیوں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گی، لیکن حکومت کو اسرائیلی مظاہرین کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا ہے جو لڑائی ختم کرنے اور یرغمالیوں کی واپسی کے لیے معاہدہ چاہتے ہیں۔
اسرائیل نے غزہ پر اپنی مہم اکتوبر 2023 میں حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملے کے ردعمل میں شروع کی تھی، جس میں 1,200 افراد مارے گئے اور 251 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

صرف جنوبی غزہ میں اسرائیلی افواج نے تقریباً 20 فیصد حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس حملے میں اب تک کم از کم 51 ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں اور ساحلی علاقے کو تباہ کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے بیشتر آبادی کو بار بار نقل مکانی کرنا پڑی ہے اور وسیع علاقے ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔
بدھ کے روز فلسطینی طبی حکام نے کہا کہ ایک فضائی حملے میں 10 افراد ہلاک ہوئے، جن میں مشہور مصنفہ اور فوٹوگرافر فاطمہ حسونہ بھی شامل تھیں، جو اس جنگ کو دستاویزی شکل دے رہی تھیں۔ ایک اور گھر پر حملے میں مزید تین افراد ہلاک ہوئے۔
غزہ کی وزارت صحت نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے مارچ کے اوائل سے ایندھن، ادویات، اور خوراک کی ترسیل معطل کرنے کے باعث چند باقی رہ جانے والے ہسپتالوں کا کام متاثر ہو رہا ہے اور طبی سامان ختم ہو رہا ہے۔
وزارت نے کہا ہے کہ سینکڑوں مریض اور زخمی افراد ضروری ادویات سے محروم ہیں، اور بارڈر کراسنگز کی بندش کے باعث ان کی مشکلات اور تکالیف میں اضافہ ہو رہا ہے۔

شیئر: