پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے پہلگام واقعے کے بعد انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر معطل کرنے کے اقدام کو مسترد کر دیا ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِصدارت قومی سلامتی کی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ انڈیا کے تمام الزامات کو بھی مسترد کیا جاتا ہے۔
اعلامیے کے مطابق پانی پاکستان کا اہم قومی مفاد اور اس کے 24 کروڑ لوگوں کی لائف لائن ہے اور پاکستان ہر قیمت پر اس کا تحفظ کرے گا۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان کی ملکیت کے پانی کے بہاؤ کو روکا گیا تو اس کو جنگ کا اقدام سمجھا جائے گا۔ انڈین کے اس اقدام کا قومی طاقت کے ساتھ بھرپور جواب دیا جائے گا۔
مزید پڑھیں
-
پاکستان اور انڈیا کے درمیان ’سندھ طاس معاہدہ‘ کیا ہے؟Node ID: 888755
-
پہلگام حملے کے بعد انڈیا میں ہراساں کیا جا رہا ہے، کشمیری طلباNode ID: 888774
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں انڈین ایئرلائنز کی پروازوں کے لیے پاکستان کی فضائی حدود بند کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔
انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے اور واہگہ اٹاری بارڈر بند کرنے سمیت کئی دیگر سخت فیصلوں کے اعلان کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے اجلاس طلب کیا تھا۔ اجلاس میں اعلیٰ سول و عسکری قیادت کی موجودگی میں پہلگام حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔
قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں کے حوالے سے اعلامیہ
’پاکستان انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے اعلان کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔ یہ معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی میں کیا گیا ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے، جس میں یکطرفہ معطلی کی کوئی گنجائش نہیں۔ پانی پاکستان کا قومی مفاد ہے، جو 24 کروڑ عوام کی زندگی کی بنیاد ہے، اور اس کی دستیابی ہر قیمت پر یقینی بنائی جائے گی۔ معاہدے کے تحت پاکستان کے پانی کو روکنے یا رخ موڑنے کی کوئی بھی کوشش، یا زیریں دریا کے حصے دار کے حقوق غصب کرنا، جنگی اقدام تصور کیا جائے گا، جس کا مکمل قومی طاقت کے ساتھ جواب دیا جائے گا۔
انڈیا کے غیرذمہ دارانہ طرز عمل اور عالمی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور معاہدوں کو نظرانداز کرنے کے پیشِ نظر، پاکستان تمام دو طرفہ معاہدوں بشمول شملہ معاہدہ کو معطل کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے، جب تک انڈیا پاکستان میں دہشت گردی، سرحد پار قتل و غارت، اور کشمیر سے متعلق عالمی قوانین و قراردادوں کی خلاف ورزی سے باز نہیں آتا۔
واہگہ بارڈر اور انڈین جہازوں کے لیے فضائی حدود بند کرنے سمیت کمیٹی کے فیصلے

واہگہ بارڈر پوسٹ کو فوری طور پر بند کیا جاتا ہے۔ انڈیا سے اس راستے سے تمام آمدورفت معطل کی جاتی ہے، بلااستثنا۔ صرف وہ افراد جن کے پاس درست سفری دستاویزات ہیں، 30 اپریل 2025 تک اسی راستے سے واپس جا سکتے ہیں۔
پاکستان، انڈیا کے شہریوں کو جاری کردہ سارک ویزا استثنیٰ سکیم کے تحت تمام ویزے فوری طور پر منسوخ کرتا ہے، سوائے سکھ مذہبی زائرین کے۔
انڈیا سے تعلق رکھنے والے وہ افراد جو اس وقت پاکستان میں موجود ہیں، انہیں ہدایت کی جاتی ہے کہ 48 گھنٹوں کے اندر ملک چھوڑ دیں، سکھ زائرین مستثنیٰ ہوں گے۔
پاکستان، اسلام آباد میں انڈیا کے دفاعی، بحری اور فضائی مشیروں کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیتا ہے۔ انہیں 30 اپریل 2025 تک پاکستان چھوڑنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ان مشیروں کے عملے کو بھی فوری طور پر انڈیا واپس جانے کی ہدایت دی گئی ہے۔
اسلام آباد میں انڈیا کے ہائی کمیشن کے سفارتی و عملے کی تعداد 30 تک محدود کی جائے گی، اس کا اطلاق 30 اپریل 2025 سے ہوگا۔
انڈیا کی ملکیت یا انڈیا کے آپریٹڈ تمام ایئر لائنز کے لیے پاکستان کی فضائی حدود فوری طور پر بند کی جاتی ہے۔
انڈیا سے اور انڈیا کے لیے تیسرے ممالک کے ذریعے بھی ہر قسم کی تجارت فوری طور پر معطل کی جاتی ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی نے اس امر پر زور دیا کہ پاکستان اور اس کی مسلح افواج اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کے لیے مکمل طور پر تیار اور باصلاحیت ہیں، جیسا کہ فروری 2019 میں انڈیا کی غیرذمہ دارانہ دراندازی پر کیے گئے متوازن مگر دوٹوک ردعمل سے ظاہر ہو چکا ہے۔
پاکستانی قوم امن کی خواہاں ہے، مگر اپنی خودمختاری، سلامتی، وقار اور ناقابلِ تنسیخ حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔‘
بدھ کو انڈیا کے سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے کابینہ کمیٹی برائے سکیورٹی (سی سی ایس) میں ہونے والے فیصلوں سے متعلق پریس بریفنگ کے دوران بتایا تھا کہ ’سندھ طاس معاہدے کو فوری طور پر معطل کر دیں گے۔ اٹاری چیک پوسٹ کو فوری طور پر بند کیا جائے گا۔ پاکستانی شہریوں کو انڈیا آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انڈیا میں موجود پاکستانی شہریوں کو 48 گھنٹوں میں ملک چھوڑنا ہو گا۔‘
اس اعلان کے بعد پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’وزیراعظم شہباز شریف نے انڈین حکومت کی جانب سے آج شام جاری ہونے والے بیان کا جواب دینے کے لیے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس جمعرات 24 اپریل کی صبح کو طلب کر لیا ہے۔‘
خیال رہے کہ منگل کو انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں عسکریت پسندوں نے سیاحوں پر حملہ کیا تھا جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس حملے کو گذشتہ ایک برس کے دوران کا بدترین حملہ قرار دیا گیا ہے۔
پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف نے بھی پہلگام حملے کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی دنیا میں کہیں بھی ہو پاکستان اس کی پرزور مذمت کرتا ہے اور یہ ہمارا مؤقف ہے۔
’پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے، پاکستان کس طرح دہشت گردی کی پشت پناہی کر سکتا ہے؟ ہم تو آخری قوم ہوں گے جو دہشت گردِی کی پشت پناہی کرے گی۔‘

انڈین سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کے حوالے سے مزید کہا تھا کہ ’پاکستان ہائی کمیشن میں ایئر، نیوی اور آرمی ایڈوائزرز کے عہدے کو ناپسندیدہ قرار دے دیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن سے تین سروس ایڈوائزرز اور معاون عملے کے پانچ افراد کو واپس بلا رہے ہیں۔ سفارت خانوں میں امدادی عملے کی تعداد 55 سے کم کر کے 30 کر دی جائے گی۔‘
حملے کی ذمہ داری ’کشمیر ریززٹنس نامی‘ ایک گروپ نے قبول کی ہے۔ انڈین سکیورٹی اداروں کا کہنا ہے کہ یہ گروپ ’ریززٹنس فرنٹ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور عسکریت پسند تنظیموں لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین سے منسلک ہے۔
سیکریٹری خارجہ کی غیرملکی سفیروں کو بریفنگ
دریں اثنا پاکستان کے سیکریٹری خارجہ آمنہ بلوچ نے اسلام آباد میں تعینات مختلف ممالک کے سفیروں اور سفارتی نمائندوں کو انڈیا کے زیرانتظام جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے کے بعد کی صورتحال پر بریفنگ دی۔
دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق سیکریٹری خارجہ نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے فیصلوں سے آگاہ کیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ سیکریٹری خارجہ نے پاکستان کے خلاف انڈیا کی جھوٹ پر مبنی مہم کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی چالیں خطے میں امن و استحکام کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔
سیکریٹری خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان نے ہمیشہ ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کی ہے۔
انہوں نے انڈیا کی جانب سے کشیدگی کو بڑھانے کی کوششوں پر خبردار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کے لیے تیار ہے۔
سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟

تقسیم ہند کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان پانی کی تقسیم سے متعلق تنازع کے بعد 19 ستمبر 1960 کو ورلڈ بینک کی ثالثی میں ان کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ اسے سندھ طاس معاہدہ کہا جاتا ہے۔
اس معاہدے پر دونوں ممالک کی جانب سے دستخط کے بعد مشترکہ مفادات کے لیے ایک مستقل انڈس کمیشن بھی قائم کیا گیا تھا جو انڈیا اور پاکستان کے کمشنرر پر مشتمل تھا۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت تین مغربی دریاؤں سندھ جہلم اور چناب کے پانیوں پر پاکستان اور تین مشرقی دریاؤں راوی، ستلج اور بیاس کے پانیوں پر انڈیا کا حق تسلیم کیا گیا تھا۔
انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والی سنہ 1965، سنہ 1971 اور سنہ 1999 کی جنگوں کے دوران بھی یہ معاہدہ قائم رکھا گیا تھا۔
سیاسی مبصرین پہلگام واقعے کے بعد یہ معاہدہ معطل کرنے کے اعلان کو انڈیا کا انتہائی غیرمعمولی اقدام قرار دے رہے ہیں۔
وفاقی وزرا کی مشترکہ نیوز کانفرنس
پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ بدھ کو انڈیا میں ہمارے ہائی کمشنر کو طلب کر کے جو ڈیمارش دیا گیا اس میں سندھ طاس معاہدے کا ذکر ہے نہ ہی معاہدے کے تحت انڈیا سندھ طاس معاہدہ معطل کر سکتا ہے۔
