پاکستان کے وفاقی وزیر مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی سردار محمد یوسف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ بھائیوں کی طرح تعاون کیا ہے اور موجودہ حج سیزن میں بھی اُن کا تعاون بے مثال رہا ہے۔
اُنہوں نے اردو نیوز سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ اس بار گزشتہ برس کی نسبت حاجیوں کے لیے زیادہ بہتر اور سہولت بخش انتظامات کیے گئے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ وزارت سنبھالنے کے بعد اُنہوں نے سب سے زیادہ توجہ حج کے انتظامات پر دی ہے اور اس پر ابھی تک کام جاری ہے۔
مزید پڑھیں
-
پاکستان کے وفاقی وزیر مذہبی امور کا پاکستان حج مشن مدینہ کا دورہNode ID: 889335
انہوں نے کہا ہے کہ سعودی عرب کا ہمیشہ سے پاکستان کے ساتھ بہت زیادہ تعاون رہا ہے۔ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان کی طرف سے جو ہدایات دی گئی ہیں، ان پر عمل کرتے ہوئے وزارتِ حج و عمرہ نے ایسے انتظامات کیے ہیں کہ کسی حاجی کو کوئی تکلیف نہ ہو۔
انہوں نے بتایا کہ حاجیوں کے رش سے بچاؤ، عبادات میں آسانی، اور سہولیات کی فراہمی کے لیے مثالی اقدامات کیے گئے ہیں۔ احرام، طواف، دعا اور دیگر ارکانِ حج میں سہولت دینے کے لیے جو ڈیوٹیاں لگائی گئی ہیں، وہ بہت منظم ہیں،
عازمین حج کے لیے سعودی عرب میں سہولیات
سردار یوسف نے حج مشن کی تیاریوں کے حوالے سے بتایا کہ وہ خود دو مرتبہ سعودی عرب کا دورہ کر چکے ہیں اور وہاں انتظامات کا خود جائزہ لیا ہے۔
’اس سال عرفات اور منیٰ میں بھی حجاج کو پہلے سے بہتر سہولیات میسر ہوں گی۔ میں سعودی حکومت، خادمِ حرمین شریفین، کانفرنس اور وزیرِ حج کو مبارکباد دیتا ہوں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں بھی وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے حج انتظامات پر مکمل تعاون رہا ہے۔ ہماری ہر حکومت کے ساتھ سعودی عرب کے دوستانہ تعلقات رہے ہیں، اس دفعہ بھی وزیراعظم صاحب نے خصوصی طور پر مجھے بھیجا تھا تاکہ حاجیوں کی خدمت میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔‘
سردار محمد یوسف نے کہا کہ رواں سال سعودی حکام نے حاجیوں کی سہولت کے لیے خصوصی انتظامات کیے ہیں۔ ہر مکتب میں ایئر کنڈیشنرز نصب کیے گئے ہیں تاکہ درجہ حرارت کو قابو میں رکھا جا سکے۔

’اس کے ساتھ اضافی پنکھے اور آرام دہ صوفے بھی فراہم کیے گئے ہیں تاکہ حاجیوں کو زیادہ دیر کھڑے رہنے یا زمین پر بیٹھنے کی زحمت نہ ہو۔ علاوہ ازیں، سامان رکھنے کے لیے اوپر کی جانب شیلف بنائی گئی ہے تاکہ نیچے جگہ کھلی رہے اور حاجیوں کو نقل و حرکت میں آسانی ہو۔ کھانے کے معیار میں بھی بہتری لائی گئی ہے تاکہ حجاج کرام کو صحت مند اور باوقار ماحول فراہم کیا جا سکے۔‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سرکاری سکیم کے تحت عزیزیہ میں رہائش، بسوں کے ذریعے حرم تک رسائی، اور تمام ضروری سہولیات کا مکمل انتظام موجود ہے۔
’پرائیویٹ سکیم میں جانے والے حاجی اگرچہ زیادہ ادائیگی کرتے ہیں، جیسے کلاک ٹاور میں قیام، مگر سعودی حکومت نے ہر حاجی کے لیے یکساں توجہ دی ہے۔‘
عازمین کی خدمت کے لیے معاونین
سردار یوسف نے بتایا کہ این ٹی ایس کے ذریعے منتخب کیے گئے معاونین میں 70 فیصد تجربہ کار اور 30 فیصد نئے افراد شامل ہیں، اور ان کی ڈیوٹیاں اس طریقے سے لگائی گئی ہیں کہ تجربہ کار افراد نئے افراد کو رہنمائی فراہم کریں۔
’انہیں باقاعدہ تربیت دی گئی ہے، اُن کے یونیفارم، بیجز اور مخصوص نشانات ہیں تاکہ حاجیوں کو دور سے شناخت ہو جائے اور وہ ان سے رہنمائی حاصل کر سکیں۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ ہر معاون کی یہ ذمہ داری ہے کہ اگر کسی حاجی کو کسی جگہ جیسے احرام، ٹرانسپورٹ یا قیام گاہ میں رہنمائی کی ضرورت ہو تو فوری مدد فراہم کرے۔

نجی کوٹہ کے تحت عازمین حج کی تعداد میں کمی کی وجوہات
سابق وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف کا کہنا تھا کہ ان کے دورِ وزارت میں حج پالیسی کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ متوسط اور کم آمدنی والے پاکستانی بھی حج کی سعادت حاصل کر سکیں۔
’میرے آنے سے پہلے بہت سی پالیسی سازیاں ہو چکی تھیں، تاہم میرے دور میں ہم نے سب سے پہلے پرائیویٹ حج آپریٹرز کا کوٹہ کم کر کے آبادی کے تناسب سے تقسیم کیا، تاکہ وہی لوگ پرائیویٹ سکیم سے مستفید ہوں جو واقعی اسے افورڈ کر سکتے ہیں۔ باقی عام پاکستانی آبادی اتنی خوشحال نہیں، مگر ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ زندگی میں کم از کم ایک بار ضرور حج کرے۔‘
ان کے مطابق ’بدقسمتی سے ہمارے پرائیویٹ ادارے اور ہوپ (نجی حج آپریٹرز کی نمائندہ تنظیم) تبدیلیوں کا بروقت ادراک نہ کر سکے۔ نئی ٹائم لائنز اور طریقہ کار پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے درجنوں حجاج فہرستوں سے رہ گئے۔ یہ حج آپریٹرز عموماً آخری وقت میں بکنگ کرتے تھے، لیکن اس بار وقت کی پابندی کی وجہ سے ڈیڈ لائن گزر چکی تھی۔‘
سردار یوسف کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے وزارت سنبھالی تو کوششوں سے مزید 12 ہزار پاکستانی حاجیوں کو شامل کیا گیا، تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد کو اللہ کے گھر کی زیارت کا موقع مل سکے۔