کیا سستی گاڑیوں کا خواب پورا ہوگا یا پاکستانی انڈسٹری بند ہو جائے گی؟
کیا سستی گاڑیوں کا خواب پورا ہوگا یا پاکستانی انڈسٹری بند ہو جائے گی؟
منگل 27 مئی 2025 5:46
زین علی -اردو نیوز، کراچی
آئی ایم ایف پاکستان پر مسلسل زور دے رہا ہے کہ وہ درآمدی پابندیاں نرم کرے۔ فائل فوٹو: اے پی پی
پاکستان میں ہر شخص یہ خواہش رکھتا ہے کہ اسے ایک ایسی گاڑی ملے جو کم قیمت، پائیدار اور ایندھن کی بچت کرے۔ مگر حالیہ حکومتی پالیسیوں، بین الاقوامی دباؤ اور صنعتی مفادات کے درمیان کشمکش کے باعث یہ خواب ایک پیچیدہ جنگ میں تبدیل ہو چکا ہے۔
آئندہ بجٹ میں گاڑیوں پر درآمدی ٹیرف میں کمی اور استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کو ممکن بنانے کی تجاویز نے آٹو سیکٹر میں ہلچل مچا دی ہے۔
عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) پاکستان پر مسلسل زور دے رہا ہے کہ وہ درآمدی پابندیاں نرم کرے تاکہ مارکیٹ میں مقابلہ بڑھے، قیمتوں میں کمی آئے اور صارفین کو براہ راست فائدہ پہنچے۔
حکومت اسی تناظر میں آئندہ پانچ سال میں مکمل تیار شدہ گاڑیوں (سی بی یوز) پر درآمدی ڈیوٹی 15 فیصد تک کم کرنے پر غور کر رہی ہے۔
حکام کے مطابق اس فیصلے سے درمیانے اور نچلے طبقے کے صارفین کو گاڑیوں کی خریداری میں آسانی ہو گی۔ مگر کیا واقعی ایسا ہوگا؟
صنعت کا خوف، مقامی اسمبلرز اور سرمایہ کاری خطرے میں
لکی موٹر کارپوریشن کے چیئرمین محمد علی ٹبہ نے وفاقی وزیر خزانہ اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صنعت و پیداوار سے ملاقات میں خبردار کیا ہے کہ سی کے ڈی اور سی بی یو (نیم تیار شدہ) کے درمیان ڈیوٹی کا فرق اگر ختم کیا گیا تو مقامی صنعت تباہ ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’2016 سے 2021 تک کی آٹو ڈویلپمنٹ پالیسی کے تحت کورین، یورپی اور چینی کمپنیوں نے پاکستان میں 1.2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ اس سرمایہ کاری سے نہ صرف روزگار پیدا ہوا بلکہ صارفین کو زیادہ آپشنز بھی ملے۔‘
محمد علی ٹبہ نے کہا ’یہ سچ ہے کہ قیمتوں میں مقابلہ ہونا چاہیے، لیکن اگر مقابلہ سبسڈی یافتہ درآمدات سے ہو تو اس کا مطلب مقامی صنعت کو ختم کرنا ہے۔‘
آٹو سیکٹر کے ماہر مشہود علی خان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایس یو ویز اور مہنگی گاڑیاں تیار کرنے والی نئی کمپنیاں زیادہ تر پرزے بیرون ملک سے منگوا رہی ہیں اور مقامی طور پر کچھ بھی تیار نہیں کر رہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’نئی کمپنیاں صرف حکومت کی طرف سے دی گئی مراعات سے فائدہ اٹھا رہی ہیں، جب کہ سپیئر پارٹس تیار کرنے والی مقامی کمپنیوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔‘
مارکیٹ میں نئی گاڑی کی قیمت 30 لاکھ سے شروع ہو کر 1 کروڑ سے اوپر تک جا چکی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
مشہود علی خان نے خبردار کیا کہ آئی ایم ایف کی تجویز کردہ پالیسی اگر حفاظتی اقدامات کے بغیر لاگو کی گئی تو پاکستان کی 30 سال پرانی سپیئر پارٹس کی صنعت ختم ہو جائے گی۔
استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد: صارفین کو فائدہ یا معیشت کو نقصان؟
آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد کا مؤقف حکومت سے بالکل مختلف ہے۔ اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔ اس سے براہ راست عوام کو فائدہ پہنچے گا۔‘
ان کا دعویٰ ہے کہ ’آج کل 660 سی سی کی گاڑی بھی 30 لاکھ روپے میں مل رہی ہے۔ متوسط طبقے کے پاس نہ نئی گاڑی لینے کی سکت ہے، نہ بینک فنانسنگ کی موثر سہولت موجود ہے۔ ایسے میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد ہی سستی گاڑی کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کا واحد راستہ رہ جاتی ہے۔‘
کیا درآمدی پالیسی پاکستان کو ’جنک یارڈ‘ بنا دے گی؟
صنعتی ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دے دی گئی تو پاکستان ایک ’جنک یارڈ‘ میں تبدیل ہو جائے گا۔ ایسی گاڑیاں جو یورپ یا جاپان میں اپنی مدت پوری کر چکی ہیں، وہ یہاں سستے داموں بیچی جائیں گی اور اس کے بعد ان کی دیکھ بھال اور پرزہ جات کی کمی نئے مسائل پیدا کرے گی۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اس پالیسی کا قلیل مدتی فائدہ ہو گا، مگر طویل مدتی نقصان بہت زیادہ ہو گا۔
سپیئر پارٹس بنانے والی کمپنیوں کا بحران
پاکستان میں آٹو پارٹس بنانے والی فیکٹریاں پہلے ہی شدید دباؤ میں ہیں۔ مہنگا خام مال، بجلی و گیس کی زیادہ قیمتیں، کرنسی کی گراوٹ اور مقامی مانگ میں کمی نے ان کی کمر توڑ دی ہے۔
استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کو ممکن بنانے کی تجاویز نے آٹو سیکٹر میں ہلچل مچا دی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
مشہود علی خان نے بتایا کہ ہمیں کوئی ایکسپورٹ پالیسی نہیں دی گئی، گزشتہ 20 سال سے ہماری برآمدات 20 سے 25 ملین ڈالر سالانہ پر رُکی ہوئی ہیں۔
صارفین کی نظر سے: کیا یہ سب میرے لیے ہے؟
آج کا پاکستانی صارف قیمت، ایندھن کی بچت اور مرمت میں آسانی کو اولین ترجیح دیتا ہے۔ مگر مارکیٹ میں نئی گاڑی کی قیمت 30 لاکھ سے شروع ہو کر 1 کروڑ سے اوپر تک جا چکی ہے۔ ایسے میں عوام کی امیدیں حکومت کی ان اصلاحات سے جڑی ہوئی ہیں جن کا مقصد قیمتوں کو کنٹرول کرنا اور مقابلہ بڑھانا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ اصلاحات عوام کے لیے ہوں گی یا صرف درآمدی مافیا اور کچھ غیرملکی کمپنیوں کے فائدے کے لیے؟
گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی ہر پاکستانی کا خواب ہے۔ مگر یہ خواب تب ہی پورا ہو گا جب حکومت ایسی درآمدی اور صنعتی پالیسی اپنائے جو نہ صرف صارف کو فائدہ دے بلکہ مقامی صنعت کو بھی مستحکم رکھے۔