Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’گاڑی ضبط اور قانونی کارروائی‘، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی پروفائلنگ کی آخری تاریخ کا اعلان

نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا کوئی ڈیٹا پولیس کے پاس نہیں ہوتا اور نہ کاغذات ہوتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
صوبہ خیبر پختونخوا میں محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے ملاکنڈ اور قبائلی اضلاع میں تمام غیر رجسٹرڈ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی پروفائلنگ کی آخری تاریخ کا اعلان کر دیا ہے۔
محکمہ ایکسائز کی جانب سے 16 مئی کو جاری اعلامیے میں متعلقہ افسران کو یکم اگست 2025 تک گاڑیوں کی پروفائلنگ کر کے ڈیٹا جمع کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ایکسائز انتظامیہ کے مطابق مقررہ تاریخ کے بعد کسی نان کسٹم پیڈ گاڑی کی پروفائلنگ نہیں کی جائے گی اور مقررہ وقت پر پروفائلنگ نہ کرانے کی صورت میں گاڑی ضبط ہونے کے ساتھ قانونی کارروائی کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایڈیشنل سیکریٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن مظہر علی شاہ کے مطابق ملاکنڈ ڈویژن اور قبائلی اضلاع میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا ڈیٹا اکھٹا کیا جا رہا ہے، ان گاڑیوں کی پروفائلنگ کے ذریعے گاڑی کی ملکیت، مالیت اورماڈل کا ڈیٹا ایکسائز کے پاس ریکارڈ میں آ جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایک سافٹ ویئر کے ذریعے مالک اور گاڑی کا ڈیٹا انٹر کیا جاتا ہے اور یہ ڈیٹا پولیس، ضلعی انتظامیہ اور ایکسائز کے پاس اکٹھا ہوتا ہے۔
ایڈیشنل سیکریٹری محکمہ ایکسائز کے مطابق نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی خرید و فروخت میں بھی یہ ڈیٹا استعمال میں لایا جائے گا۔ ’متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کے پاس گاڑی کا ڈیٹا موجود ہوگا کہ یہ کس کی گاڑی ہے اور کس کو فروخت کی گئی ہے۔‘

گاڑی پروفائلنگ کا طریقہ کار 

محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اہلکار محمد نعیم نے اردو نیوز کوبتایا کہ جس ضلع میں گاڑی زیراستعمال ہو، اسی علاقے کے متعلقہ ای ٹی او آفس میں گاڑی کے ہمراہ جانا لازمی ہوگا، رجسٹریشن سے قبل شناختی کارڈ اور بارگین کی رسید جمع کرانی ہوگی جہاں سے نان کسٹم پیڈ گاڑی خریدی گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ گاڑی کی ابتدائی چھان بین کے بعد پانچ سے10 منٹ میں پروفائلنگ مکمل کر لی جاتی ہے۔ 
ایکسائز اہلکار محمد نعیم کے مطابق ’اگر گاڑی کی چیسز ٹمپرڈ (تبدیل یا خراب) ہو تو ایسی صورت میں گاڑی کی پروفائلنگ نہیں کی جائے گی بلکہ مالک کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ شہری کے لیے پروفائلنگ کی کوئی فیس نہیں ہے، رجسٹریشن کا عمل مکمل ہونے کے بعد مقامی پولیس سٹیشن کی جانب سے گاڑی کے لیے عارضی نمبر پلیٹ جاری کی جائے گی۔

کیا نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر ٹیکس وصول کیا جائے گا؟ 

خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر ایکسائز خلیق الرحمان نے کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کا نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر ٹیکس عائد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں اور نہ صوبائی حکومت کو کسٹم ٹیکس نافذ کرنے کا اختیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’کسٹم ٹیکس وفاقی حکومت کا سبجیکٹ ہے۔ گاڑیوں کی پروفائلنگ کا فیصلہ ایپیکس کمیٹی میں ہوا تھا جس پر تیزی سےعمل درآمد کیا جا رہا ہے۔‘

پولیس کے مطابق نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے نام پر چوری شدہ گاڑیوں کی خرید و فروخت بھی کی جا رہی ہے۔ فائل فوٹو: اے پی پی

انہوں  نے مزید کہا کہ نان کسٹم گاڑیوں پر پابندی بھی نہیں لگائی جا سکتی کیونکہ ملاکنڈ اور قبائلی اضلاع میں یہ گاڑیاں روزگار کا ذریعہ ہیں۔

نان کسٹم پیڈ گاڑیاں کہاں سے خریدی جاتی ہیں؟ 

نان کسٹم پیڈ وہ گاڑیاں ہیں جو کسٹم ٹیکس اد کیے بغیر غیرقانونی طور پر ملک میں لائی جاتی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں ایسی تمام گاڑیاں افغانستان کے راستے سمگل کی جاتی ہیں۔
ان گاڑیوں کی قیمت اصل قیمت سے تقریباً 70 فیصد کم ہوتی ہے اور یہ افغانستان کے خطرناک سنگلاخ پہاڑی راستوں کے ذریعے پاکستان کے بارڈر پر ماہر ڈرائیورز کی مدد سے لائی جاتی ہیں۔

نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی قیمت کیوں بڑھی؟

ملاکنڈ کے علاقے چکدرہ میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے کاروبار سے وابستہ عجب خان نے بتایا کہ ’افغانستان کے ساتھ بارڈر پر کشیدگی اور بارڈر کی بندش کے بعد نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، جو گاڑی پہلے پانچ لاکھ میں دستیاب تھی اب وہی گاڑی 10 سے 12 لاکھ روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ پہلے چترال ارندو، خرلاچی کرم اور وزیرستان کے بارڈر پر گاڑیوں کی آمد و رفت نستباً آسان تھی تاہم ان میں سے بیشتر بارڈ بند کر دیے گئے ہیں جبکہ چمن سرحد پر سخت اقدامات کے باعث گاڑیوں کو سرحد پار کرانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

2024 میں کوہستان داسو میں چینی انجینیئرز پر حملے میں نان کسٹم پیڈ گاڑی استعمال کی گئی تھی۔ فائل فوٹو: اے پی پی

جرائم اور دہشتگردی میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا استعمال 

نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے نام پر چوری شدہ گاڑیوں کی خرید و فروخت بھی کی جا رہی ہے جبکہ بعض علاقوں میں جرائم میں یہ گاڑیاں استعمال کی گئی ہیں۔
ملاکنڈ کے ایک پولیس افسر نے اردو نیوز کوبتایا کہ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا کوئی ڈیٹا پولیس کے پاس نہیں ہوتا اور نہ کاغذات ہوتے ہیں جبکہ چوری شدہ گاڑیوں کے مقدمات درج ہوئے ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2016 سے پہلے نان کسٹم پیڈ گاڑیاں عسکریت پسند تنظیموں کے زیرِ استعمال تھیں جس کے بعد سال 2017 میں انہیں مقامی تھانے میں رجسٹرڈ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی جس پر جزوی طور پرعمل درآمد ہوا۔
سال 2024 میں کوہستان داسو میں چینی انجینیئرز پر حملے میں نان کسٹم پیڈ گاڑی استعمال کی گئی تھی۔

شیئر: