Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بجلی چوری کے خلاف مہم تیز، لاہور میں چوروں کا خفیہ کیمروں کے استعمال کا انکشاف

لیسکو حکام کے مطابق لاہور کا شالیمار اور قصور کے علاقے بجلی چوری کے ہاٹ سپاٹس سمجھے جاتے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) نے بجلی چوری کے خلاف اپنی مہم کو مزید تیز کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ شہر اور مضافات میں بڑی فیکٹریوں اور صنعتی یونٹس میں خفیہ کیمروں اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے بجلی چوری کے کئی واقعات کا انکشاف ہوا ہے۔
لیسکو کے چیف انجینئر رمضان بٹ نے اردو نیوز کو بتایا کہ بجلی چور مافیا خفیہ کیمروں سے اپنے سیٹ اپس کی نگرانی کرتا ہے، لیکن رینجرز، خفیہ اداروں اور پولیس کے تعاون سے ہم نے اس مافیا کے عزائم کو ناکام بنایا ہے۔
’شالیمار، قصور اور لاہور کے مضافاتی علاقوں میں کی گئی کارروائیاں نہ صرف کامیاب رہیں بلکہ انہوں نے بجلی چوری کے منظم نیٹ ورک کو بے نقاب بھی کیا، جو ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا رہا تھا۔‘

بجلی چوری میں جدید ٹیکنالوجی اور خفیہ کیمرے

لیسکو کے مطابق بجلی چور مافیا نے اپنے غیرقانونی سیٹ اپس کو چلانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیا۔ سی سی ٹی وی سسٹمز سے منسلک خفیہ کیمرے ان مقامات پر نصب کیے گئے تھے جہاں سے بجلی چوری کی جا رہی تھی تاکہ لیسکو کی ٹیموں کی آمد و رفت پر نظر رکھی جا سکے۔
چیف انجینیئر رمضان بٹ کے مطابق ’یہ گینگ رات کے وقت زیادہ سرگرم ہوتے تھے اور خفیہ کیمروں کے ذریعے لیسکو کی گشتی ٹیموں کی نگرانی کرتے تھے۔ بعض فیکٹریوں نے تو اپنے میٹر رومز کو خفیہ تہہ خانوں میں منتقل کر دیا تھا، جہاں تک رسائی تقریباً ناممکن تھی۔‘
اس کے علاوہ، بجلی چوروں نے میٹروں میں چھیڑ چھاڑ، غیر قانونی کنکشنز (کُنڈے)، اور بائی پاس سسٹمز نصب کر رکھے تھے، جن کے ذریعے وہ بجلی کی اصل کھپت چھپاتے تھے۔ بعض بڑی فیکٹریوں نے تو اپنے میٹرز مکمل طور پر ہٹا دیے اور براہِ راست ہائی وولٹیج لائنوں سے بجلی حاصل کرنا شروع کر دی، جس سے نہ صرف لیسکو کو مالی نقصان ہوا بلکہ بجلی کے گرڈ پر دباؤ بڑھنے سے لوڈشیڈنگ میں بھی اضافہ ہوا۔‘

رینجرز کی شمولیت اور آپریشن کا آغاز

بجلی چوری کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز 2023 کے وسط میں اُس وقت ہوا جب وفاقی حکومت نے تمام تقسیم کار کمپنیوں کو اس حوالے سے سخت کارروائی کی ہدایت دی۔ تب سے لیسکو لاہور اور اس کے مضافاتی علاقوں میں آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے۔
ستمبر 2023 میں شالیمار اور قصور کے علاقوں میں لیسکو ٹیموں کو بجلی چور گینگز کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد رینجرز کو طلب کیا گیا۔ رینجرز کی شمولیت کے بعد لاہور، قصور اور چونیاں میں کئی کامیاب چھاپے مارے گئے۔
رمضان بٹ کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے ہم نے لاہور کے شالیمار جیسے ہاٹ سپاٹس میں آپریشن شروع کیا۔ بعد میں بجلی چور مافیا مضافاتی علاقوں کی طرف بھاگ گیا۔ اگر رینجرز کی مدد نہ ہوتی تو ہم ان تک کبھی نہ پہنچ پاتے۔

رمضان بٹ کے مطابق بجلی چور گینگ رات کے وقت زیادہ سرگرم ہوتے تھے اور خفیہ کیمروں کے ذریعے لیسکو کی گشتی ٹیموں کی نگرانی کرتے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

رینجرز نے نہ صرف سکیورٹی فراہم کی بلکہ خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر بجلی چوروں کے ٹھکانوں کی نشاندہی بھی کی، جس سے منظم نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی ممکن ہو سکی۔

بجلی چوری میں ملوث بڑی فیکٹریاں

رینجرز کی شمولیت کے بعد لیسکو نے لاہور اور قصور کی کئی بڑی فیکٹریوں کے مالکان اور ملازمین پر بجلی چوری کے الزامات عائد کیے۔

شالیمار کی ٹیکسٹائل فیکٹری

اکتوبر 2023 میں شالیمار کے صنعتی علاقے میں واقع ایک بڑی ٹیکسٹائل فیکٹری کو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ فیکٹری نے میٹر روم کو زیرِ زمین خفیہ تہہ خانے میں منتقل کر رکھا تھا، جہاں خفیہ کیمرے نصب تھے۔ لیسکو اور رینجرز کی مشترکہ کارروائی میں 10 لاکھ یونٹس سے زائد بجلی چوری کا انکشاف ہوا، جس کی مالیت تقریباً چار کروڑ روپے تھی۔ فیکٹری مالک کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔

قصور کی سٹیل مل

دسمبر 2023 میں قصور کے مضافاتی علاقے میں واقع ایک سٹیل مل کو ہائی وولٹیج لائن سے براہِ راست غیر قانونی کنکشن کے ذریعے بجلی چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا۔ مل ماہانہ 5 لاکھ یونٹس سے زائد بجلی چوری کر رہی تھی۔ لیسکو نے 6 کروڑ روپے کا ڈٹیکشن بل جاری کیا اور دو ملازمین کو گرفتار کیا، جو اس سیٹ اپ کی نگرانی کر رہے تھے۔

چونیاں کی کاغذی مصنوعات فیکٹری

فروری 2024 میں بہاری پور، چونیاں میں واقع ایک کاغذی مصنوعات بنانے والی فیکٹری کو بجلی چوری پر پکڑا گیا۔ فیکٹری نے میٹر میں چھیڑ چھاڑ کی ہوئی تھی اور خفیہ کیمروں کے ذریعے لیسکو ٹیموں کی نگرانی بھی کی جا رہی تھی۔ لیسکو نے تین کروڑ روپے کا ڈٹیکشن بل جاری کیا اور تین ملازمین کو گرفتار کیا گیا۔

بجلی چوری کے ہاٹ سپاٹس

لیسکو حکام کے مطابق لاہور کا شالیمار اور قصور کے علاقے بجلی چوری کے ہاٹ سپاٹس سمجھے جاتے ہیں۔ شالیمار کا صنعتی علاقہ، جہاں کئی ٹیکسٹائل، کیمیکل اور سٹیل فیکٹریاں قائم ہیں، خاص طور پر بدنام ہے۔

رمضان بٹ کا کہنا تھا کہ ’ہم نے نہ صرف بجلی چوروں کو پکڑا بلکہ ادارے کے اندر موجود کالی بھیڑوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

حکام کے مطابق کچھ فیکٹریوں نے لیسکو کے بعض اہلکاروں سے ملی بھگت کر کے غیر قانونی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
قصور کے مضافاتی علاقوں، خاص طور پر چونیاں میں گھریلو، زرعی اور صنعتی کنکشنز کے ذریعے بجلی چوری عام ہے۔ یہاں کنڈوں کا جال بچھا دیا گیا تھا، جو رات کے وقت فعال ہوتا تھا۔ لیسکو کے مطابق قصور میں بجلی چوری کی شرح 30 فیصد سے زائد ہے، جو کہ قومی اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔

اب تک کی کامیابیاں

لیسکو کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک لاہور اور اس کے مضافاتی علاقوں میں 16 ہزار سے زائد بجلی چوروں کو پکڑا گیا، جن میں سے ہانچ ہزار کے خلاف ایف آئی آرز درج کی گئیں اور دو ہزار سے زائد کو گرفتار کیا گیا۔ اس دوران ایک اعشاریہ پانچ ارب یونٹس سے زائد بجلی چوری روکی گئی، جس کی مالیت تقریباً چھ ارب روپے ہے۔
شالیمار اور قصور میں کی گئی کارروائیوں کے نتیجے میں 500 سے زائد صنعتی کنکشنز منقطع کیے گئے اور 200 سے زائد فیکٹریوں کو ڈٹیکشن بلز جاری کیے گئے۔ لیسکو نے 50 سے زائد اپنے ملازمین کو بھی معطل کیا، جو بجلی چوری میں ملوث افراد کی معاونت کر رہے تھے۔
رمضان بٹ کا کہنا تھا کہ ’ہم نے نہ صرف بجلی چوروں کو پکڑا بلکہ ادارے کے اندر موجود کالی بھیڑوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی ہے۔‘

 

شیئر: