Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سرنڈر کریں ورنہ جیل توڑنے کے چارجز لگیں گے‘: ملیر جیل سے 216 قیدی فرار

جیل حکام کے مطابق ملیر جیل میں اس وقت تقریباً چھ ہزار قیدی موجود ہیں۔ (فوٹو: اے پی پی)
کراچی کی ڈسٹرکٹ جیل ملیر سے گزشتہ شب 216 قیدیوں کے فرار کا واقعہ پیش آیا جسے ملک کے جیل سکیورٹی نظام کی بڑی ناکامی قرار دیا جا رہا ہے۔
فرار کے دوران قیدیوں اور پولیس اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں جس کے نتیجے میں ایف سی اور پولیس کے پانچ اہلکار زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ ایک قیدی کی ہلاکت اور تین کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ 
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اب تک 80 سے زائد قیدی دوبارہ گرفتار کیے جا چکے ہیں اور دیگر قیدیوں کی گرفتاری کے لیے شہر بھر میں ناکہ بندی، سرچ آپریشن اور انٹیلی جنس نگرانی کا عمل جاری ہے۔
صوبہ سندھ کے وزیراعلٰی مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ملیر جیل سے بھاگنے والے قیدیوں میں کوئی بڑا مجرم یا دہشت گرد شامل نہیں تھا۔
منگل کو کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ جو قیدی فرار ہوئے وہ چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ شام چھ بجے کے بعد قیدیوں کو باہر نکالنا غلط فیصلہ تھا اور جس نے بھی یہ کیا اس کو سزا ملے گی۔ ’یہ واقعہ نہیں ہونا چاہیے تھا اب ہو گیا ہے تو اس کی تحقیقات کی جائیں گی۔‘
انہوں نے فرار قیدیوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’ان سے کہتا ہوں کہ سرنڈر کر دیں ورنہ جیل توڑنے جیسے بڑے چارجز لگیں گے۔‘
پولیس کے مطابق پیر اور منگل کی درمیانی شب قیدیوں نے اچانک بیرکوں سے نکل کر ہنگامہ آرائی شروع کی اور اس دوران جیل کے اندر اور اطراف شدید فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں۔ صورتحال قابو سے باہر ہونے پر رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری طلب کی گئی جس نے جیل اور ملحقہ علاقوں کو گھیرے میں لے لیا۔
وزیر داخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار اور وزیر جیل خانہ جات علی حسن زرداری نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
حکام نے اس واقعے کو سکیورٹی کے لحاظ سے انتہائی سنگین قرار دیا ہے اور قیدیوں کے خلاف جیل توڑنے، پولیس پر حملے اور دیگر فوجداری دفعات کے تحت مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔

وزیراعلٰی مراد علی شاہ نے کہا کہ جو قیدی فرار ہوئے وہ چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث تھے۔ (فوٹو: سی ایم ہاؤس)

پولیس اور جیل حکام کے مطابق واقعہ رات کے وقت پیش آیا جب جیل کے اندر اچانک افرا تفری پھیل گئی۔ اس دوران قیدیوں کو بیرکوں سے باہر نکالا گیا تھا اور اسی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑی تعداد میں قیدی فرار ہوگئے۔ واقعے کے وقت جیل کے اندر اور اطراف فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں جس سے قریبی آبادیوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔
ایس ایس پی ملیر کاشف آفتاب عباسی نے اردو نیوز کو تصدیق کی کہ پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری فوری طور پر جیل پہنچی اور نیشنل ہائی وے سمیت ارد گرد کے علاقوں کو گھیرے میں لے لیا گیا۔ سکیورٹی کے پیش نظر نیشنل ہائی وے کو کچھ دیر کے لیے دونوں اطراف سے بند بھی کیا گیا۔
جیل ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’گزشتہ روز شہر میں بارہا زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تھے جن کے بعد جیل حکام نے قیدیوں کو بیرکوں سے نکال کر کھلے میدان میں منتقل کیا۔ اسی دوران قیدیوں نے منصوبہ بندی کے تحت جیل کی حدود کو توڑنے کی کوشش کی۔‘
ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل محمد شمریز، ڈی آئی جی جیل خانہ جات حسن سہتو، وزیر داخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار اور وزیر جیل خانہ جات علی حسن زرداری نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
وزیر داخلہ سندھ نے کہا ہے کہ ’جیل کی دیوار تو نہیں توڑی گئی تاہم واقعے میں انتظامی غفلت اور سکیورٹی میں خامیوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ غفلت برتنے والے افسران کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔‘
گزشتہ شب وزیرداخلہ سندھ ضیا لنجار نے میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’جیل سے کوئی خطرناک قیدی فرار نہیں ہوا۔ زلزلے کے جھٹکوں کے دوران ماڑی گیٹ پر ایک ہزار سے 700 قیدی جمع ہوئے اور گیٹ توڑ کر فرار ہوئے۔ یہ سنجیدہ نوعیت کا واقعہ ہے، اس میں کوتاہی بھی ہو سکتی ہے۔‘

ڈی آئی جی جیل خانہ جات حسن سہتو کے مطابق قیدیوں نے پولیس پر تشدد کیا۔ (فوٹو: سکرین گریب)

صوبائی وزیر داخلہ نے رات گئے ملیر جیل کا دورہ کرکے صورتحال کا جائزہ لیا۔ پولیس رینجرز اور ایف سی نے سرچ آپریشن مکمل کرکے جیل کا کنٹرول سنبھال لیا۔
پولیس اور رینجرز کی مشترکہ ٹیمیں مفرور قیدیوں کی تلاش کے لیے مختلف علاقوں میں کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سکیورٹی اداروں نے ریلوے سٹیشن، بس اڈوں اور نیشنل ہائی وے پر ناکہ بندی کر دی ہے اور انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
’ملیر میں چھ ہزار قیدی موجود ہیں‘
جیل حکام کے مطابق ملیر جیل میں اس وقت تقریباً چھ ہزار قیدی موجود ہیں جن کی دوبارہ گنتی اور ریکارڈ کی جانچ کا عمل جاری ہے تاکہ فرار ہونے والے قیدیوں کی درست تعداد معلوم کی جا سکے۔
واقعے کے دوران ایک جذباتی لمحہ اس وقت سامنے آیا جب فرار ہونے والے قیدیوں میں سے ایک کو اس کی والدہ نے ازخود واپس جیل پہنچا دیا۔
پولیس کے مطابق مفرور قیدیوں کے خلاف جیل توڑنے، پولیس پر حملے اور دیگر دفعات کے تحت مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔ واقعے کی مکمل تفتیش جاری ہے اور ابتدائی رپورٹ میں جیل انتظامیہ کی جانب سے سنگین سکیورٹی کوتاہیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ صورتحال اس وقت قابو میں ہے تاہم جیل سکیورٹی نظام میں اصلاحات اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی آئندہ چند روز میں متوقع ہے۔
آئی جی سندھ غلام نبی نے واقعے کے بعد ملیر جیل کا دورہ کیا اور مختلف حصوں کا جائزہ لیا۔

پولیس کے مطابق پیر اور منگل کی درمیانی شب قیدیوں نے اچانک بیرکوں سے نکل کر ہنگامہ آرائی شروع کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ’ملیر جنگ میں زیادہ تر منشیات کے قیدی ہوتے ہیں جو ایک قسم کے نفسیاتی مریض ہوتے ہیں، واقعے کے بعد پولیس نے بروقت کارروائی کی اور زیادہ تر فرار ہونے والے قیدیوں کو پھر گرفتار کر لیا گیا۔‘
ڈی آئی جی جیل خانہ جات حسن سہتو کے مطابق ’قیدیوں نے نہ صرف پولیس پر تشدد کیا بلکہ اہلکاروں سے اسلحہ بھی چھین لیا۔ واقعے کے بعد جیل کے اطراف وقفے وقفے سے فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کراچی میں زلزلے کے جھٹکوں کے دوران قیدیوں کی بڑی تعداد بیرکس سے باہر نکلی۔‘
واقعے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ شہریوں سے جیل کے اطراف جانے سے گریز کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔

شیئر: