Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان: اوپن لیٹر پر گاڑیوں کی خرید و فروخت کے خلاف کریک ڈاؤن کیوں ہو رہا ہے؟

پاکستان میں گاڑیوں کی خرید و فروخت کے دوران ایک اصطلاح ’اوپن لیٹر‘ عام طور پر استعمال ہوتی ہے، جو قانونی پیچیدگیوں اور سکیورٹی خدشات کی وجہ سے حالیہ دنوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

اوپن لیٹر کیا ہے؟

اوپن لیٹر دراصل ایسی صورتِ حال کو ظاہر کرتا ہے جس میں گاڑی کسی شخص کے نام پر رجسٹرڈ تو ہوتی ہے، مگر فروخت کے بعد نیا خریدار باقاعدہ طور پر اسے اپنے نام منتقل نہیں کرواتا۔ اس کے بجائے، گاڑی کی اصل رجسٹریشن کے ساتھ ایک اختیاری خط (ٹرانسفر لیٹر) شامل ہوتا ہے، جسے کوئی بھی فرد استعمال کر کے گاڑی چلا سکتا ہے۔

کریک ڈاؤن کب اور کیسے شروع ہوا؟

پنجاب، سندھ اور اسلام آباد سمیت مختلف علاقوں میں اوپن لیٹر پر گاڑیوں کے استعمال کے خلاف ایک بار پھر کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا ہے۔ محکمہ ایکسائز اور پولیس حکام نے ایسی گاڑیوں کی جانچ پڑتال تیز کر دی ہے، جبکہ ٹریفک پولیس نے بعض مقامات پر چالان اور گاڑیوں کو ضبط کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔
محکمہ ایکسائز سندھ نے گاڑیوں کی رجسٹریشن اور ملکیت کی منتقلی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے دو اہم اقدامات کیے ہیں۔ صوبائی وزیر مکیش کمار چاولہ کے مطابق کراچی کے کلفٹن علاقے میں ایگزیکٹو موٹر رجسٹریشن سینٹر قائم کیا گیا ہے تاکہ شہریوں کو سہولت فراہم کی جا سکے۔ یہ سینٹر ابتدائی طور پر صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک فعال رہے گا، جبکہ محرم کے بعد اسے 24 گھنٹے کھلا رکھنے کا منصوبہ ہے۔
مستقبل میں سندھ بھر کے ڈویژنز اور اضلاع میں بھی ایسے مراکز پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت قائم کیے جائیں گے۔

اوپن لیٹر پر پابندی کیوں ضروری ہے؟

اوپن لیٹر پر گاڑی چلانے والوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ حکام کے مطابق ایسی گاڑیاں جرائم، چوری اور ٹیکس چوری میں استعمال ہو سکتی ہیں، اس لیے ان کے خلاف فوری کارروائی کی جا رہی ہے۔ محکمہ ایکسائز نے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی گاڑیاں فوری طور پر اپنے نام منتقل کروائیں، بصورت دیگر ضبطی اور قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
ایڈووکیٹ ساجد لطیف کے مطابق اوپن لیٹر کا رجحان صرف سہولت یا تاخیر کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ قانونی، سکیورٹی اور مالی معاملات میں سنگین پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے۔
انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ اوپن لیٹر پر گاڑی رکھنے والے افراد نہ صرف خود کو خطرے میں ڈالتے ہیں بلکہ ریاستی نظام اور قانون کو بھی چیلنج کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ اگر گاڑی کسی غیر قانونی سرگرمی جیسے اسمگلنگ، دہشت گردی یا چوری میں استعمال ہو جائے تو ذمہ داری اس شخص پر عائد ہوتی ہے جس کے نام پر گاڑی رجسٹرڈ ہو، نہ کہ اس پر جو گاڑی چلا رہا ہو۔ یعنی اگر کسی نے گاڑی فروخت کر دی لیکن خریدار نے اسے اپنے نام رجسٹر نہ کروایا، تو قانونی طور پر اصل مالک وہی شخص تصور کیا جائے گا۔
ٹیکس نظام کو بھی نقصان
ساجد لطیف کے مطابق اس روایت سے ٹیکس نظام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔ جب خریدار گاڑی اپنی ملکیت میں منتقل نہیں کرتا تو وہ موٹر وہیکل ٹوکن ٹیکس اور ٹرانسفر فیس کی ادائیگی سے بچ جاتا ہے، جس سے نہ صرف ریاستی ریونیو میں کمی آتی ہے بلکہ ٹیکس چوری کو بھی فروغ ملتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بعض افراد بڑی مالی رقوم کو چھپانے کے لیے اوپن لیٹر پر گاڑیاں خریدتے ہیں تاکہ وہ دولت ان کے نام پر ظاہر نہ ہو۔ اس طریقے سے وہ گاڑیوں کی صورت میں اپنی دولت محفوظ رکھتے ہیں اور انکم ٹیکس حکام کی نظروں سے بچ جاتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اوپن لیٹر پر گاڑی رکھنا ایک قانونی ابہام پیدا کرتا ہے۔ کسی حادثے، تصادم یا عدالتی مقدمے کی صورت میں یہ طے کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اصل ذمہ دار کون ہے۔

فراڈ، چوری اور منی لانڈرنگ کے امکانات

ساجد لطیف کا مزید کہنا تھا کہ اوپن لیٹر کی بنیاد پر گاڑی کسی تیسرے شخص کو فروخت کرنا نہایت آسان ہوتا ہے، جس سے فراڈ اور چوری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ طریقہ کار منی لانڈرنگ اور اثاثے چھپانے کے ایک ہتھکنڈے کے طور پر بھی استعمال ہو رہا ہے۔
انہوں نے تجویز دی کہ حکومت کو گاڑیوں کی رجسٹریشن کا عمل سخت بنانا چاہیے اور گاڑی کی خریداری کے فوراً بعد اس کی خریدار کے نام منتقلی کو لازمی قرار دینا چاہیے تاکہ اس خطرناک روایت کا خاتمہ کیا جا سکے۔

کاروباری برادری کا مؤقف

استعمال شدہ گاڑیوں کی خرید و فروخت سے وابستہ حافظ حارث قاسم کا کہنا ہے کہ سندھ میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کے نئے ضوابط نے اس کاروبار میں شفافیت کو فروغ دیا ہے۔ انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اب گاڑی کی رجسٹریشن کے لیے بایومیٹرک تصدیق لازمی ہے، جس سے اوپن لیٹر پر گاڑی چلانے کا رجحان کم ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم کوشش کرتے ہیں کہ جب بھی گاڑی فروخت کریں تو خریدار کو فوری طور پر گاڑی اپنے نام پر منتقل کروائیں۔ اس سے ہم بھی مطمئن ہوتے ہیں اور فروخت کنندہ بھی قانونی پیچیدگیوں سے بچ جاتا ہے۔‘
حافظ حارث کے مطابق ماضی میں اوپن لیٹر پر گاڑی فروخت کرنا عام بات تھی، لیکن اب محکمہ ایکسائز اور ٹریفک پولیس کی سختی کے بعد اس پر پابندی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگرچہ نیا نظام وقت لیتا ہے، مگر اس سے نہ صرف ٹیکس نظام بہتر ہوگا بلکہ گاڑیوں کے غلط استعمال کے امکانات بھی کم ہو جائیں گے۔
ان کے مطابق بایومیٹرک نظام مستقبل میں گاڑیوں کی خرید و فروخت کو مزید محفوظ بنا دے گا۔

حکام کا مشورہ

حکام کا مشورہ ہے کہ اگر کوئی فرد گاڑی خریدے تو وہ فوری طور پر متعلقہ محکمہ ایکسائز میں جا کر اسے اپنے نام پر منتقل کروائے۔ اس کے لیے اصل رجسٹریشن بک، شناختی کارڈ اور فروخت کنندہ کا ٹرانسفر لیٹر درکار ہوتا ہے۔

شیئر: