Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روحانی سفر، حجاج  مکہ اور مدینہ میں کن تاریخی مقامات کی زیارت کر رہے ہیں

حجاج تاریخی مقامات کے بارے میں مزید جاننے کے لیے کوشاں ہیں (فوٹو: ایس پی اے)
 بیشتر حجاج مناسک پورے کرنے کے بعد اب روحانیت کے ایک گہرے سفر پر گامزن، سعودی عرب میں بکھری ہوئی اسلام کے تاریخی مقامات کے بارے میں مزید جاننے کے لیے کوشاں ہیں جن کی جڑیں ان کے عقیدے سے ملتی ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق مکہ مکرمہ میں حجاج جبلِ نُور کی طرف جا رہے ہیں جس کے معانی ہیں ’نُور کا پہاڑ‘، اس کی چوٹی پر غارِ حرا واقع ہے جہاں حضرت جبرائیل پہلی وحی لے کر آئے تھے۔
اونٹ کے کوہان جیسی شکل کے وجہ سے منفرد، جبلِ نور ایک جاذبِ نظر سنگِ میل ہے۔
اس کے قریب ہی حرا کلچرل ڈسٹرکٹ کی ’رِیوِیلیشن گیلری‘ ہے جہاں حجاج کے لیے موقع ہوتا ہے کہ وہ یاد دہانی یا معلومات میں اضافے کے لیے اسلامی تاریخ کے اوراق پلٹا سکیں۔
احمد خان پرائیویٹ ٹور گائیڈ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’جہاں سے یہ سب کچھ شروع ہوا وہاں کھڑے ہو کر ایسا لگتا ہے کہ ابھی کچھ اور جاننا باقی ہے۔ جب میں زائرین کو جبلِ نور پر لے کر جاتا ہوں، تو بہت سے لوگوں کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں۔ یہ صرف ایک چڑھائی نہیں ہے، یہ روحانی بیداری ہے۔
جبلِ نور کے جنوب میں، جبلِ ثور واقع ہے۔ یہ وہ پہاڑ ہے جو پیغمبرِ اسلام اور ان کے صحابی حضرت ابوبکر صدیق کے لیے اس وقت نہ دکھائی دینے والا گہورا بن گیا تھا جب وہ مدینے کو ہجرت کر رہے تھے۔

 مکہ مکرمہ میں حجاج جبلِ نُور کی طرف جا رہے ہیں (فوٹو: عرب نیوز)

 یہ مقدس کہانی آج بھی حجاج کو بہت اچھی طرح اس واقعے کی یاد دلاتی ہے جب مکڑی نے غار کے دہانے پر جالا بُن دیا تھا اور قُمری نے گھونسلہ بنا دیا تھا تاکہ خدا کے پیغمبر اور ان کے ساتھی کو کوئی دیکھ نہ سکے۔
ایک اور مقام جہاں حجاج اکثر جاتے ہیں وہ جبلِ ابُوقُبیس ہے جس کے بارے میں روایت ہے کہ اس پہاڑ کو پہلی بار زمین کی گود میں رکھا گیا۔
 یہ پہاڑ، مسجد الحرام سے قریب واقع ہے اور پیغمبرِ اسلام کی طرف سے دین کی ابتدائی دعوت اور بھاری روحانی ذمہ داری کی یاد دلاتی ہے۔ پاس میں، نمود نمائش سے بے نیاز مگر تاریخی لحاظ سے اہم، مسجد العقبہ ہے جہاں انصارِمدینہ نے پیغبمر اسلام کے دستِ مبارک پر بیعت کی تھی۔
عباسی دور میں تعمیر ہونے والی یہ مسجد، مسلمانوں کے دین (اسلام) پر کاربند رہنے کے عہد اور ابتدائی اسلامی اخُوت و اتحاد کی علامت ہے۔

ایک اور مقام جہاں حجاج اکثر جاتے ہیں وہ جبلِ ابُوقُبیس ہے (فوٹو: عرب نیوز)

اس مقام سے تھوڑے ہی فاصلے پر الحجون کا ضلع ہے جہاں جبلِ سیدہ واقع ہے۔ اس پہاڑ کی بنیاد کے نزدیک ’ مقبرۂ المعلا‘ ہے جو پیغمبرِ اسلام کی انتہائی عزیز اہلیہ اُم المُومنین حضرت خدیجہ کی آخری آرام گاہ ہے۔ ان کی قبر آج بھی بے حد احترام کا مرکز ہے۔
احمد خان کہتے ہیں ’حجاج ان مقامات کی زیارت کو جانا بہت پسند کرتے ہیں اور وہاں جا کر انھیں ایسے افراد کی قربانیوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہی جنھوں نے اسلام کی تشکیل سازی کی۔
مدینے کی اپنی ہی ایک لازوال وراثت ہے۔ یہاں مسجدِ قبلتین ہے۔ اس مسجد میں نماز کے دوران پیغمبرِ اسلام پر وحی نازل ہوئی اور یروشلم کے بجائے اپنے چہرے کو مکہ کی جانب موڑ لیا۔ اس لمحے نے مسلمانوں کی علیحدہ شناخت قائم کرنے میں ایک انتہائی اہم تبدیلی کی بنا ڈال دی اور حاجی اس مسجد کو دیکھنے ضرور آتے ہیں۔

مدینے کی اپنی ہی ایک لازوال وراثت ہے۔ یہاں مسجدِ قبلتین ہے۔(فوٹو: عرب نیوز)

حسین رؤف، ایلاف التقوٰی مدینہ ہوٹلز کے ریجنل ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’ہم پورے مدینے میں مزید ایسے ٹوور کا انتظام کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جن کے ساتھ گائیڈ ہوا کریں گے۔ یہ افراد مدینہ شہر میں اسلام کے بیش قیمت ورثے کو سمجھانے میں مدد کریں گے۔ اس طرح کے اقدام، حج اور اس سے وابستہ مناسک و مراحل کے بعد زائرین کے روحانی سفر کو مزید با معنی بنائیں گے۔‘
مسجدِ نبوی سے جانبِ مغرب، سات مساجد ہیں۔ ان میں ہر مسجد کسی نہ کسی طرح جنگِ خندق کے کسی واقعے سے جُڑی ہوئی ہے۔ ان مساجد میں الفتح مسجد کے علاوہ دیگر مساجد کسی شخصیت کے نام پر ہے۔ مثلاً یہاں کی تین مساجد کے نام مسجدِ فاطمہ، مسجدِ علی ابنِ ابی  طالب اور مسجدِ سلمان فارسی ہیں۔ یہ مساجد، اسلام کی تاریخ سے بھری پڑی ہیں اور اسلام کی اہم ترین جنگی مہمات کے دوران جو مشکلات درپیش ہوئیں، ان کی یادگار بھی ہیں۔

احد کا پہاڑ، مدینہ سے شمال کی جانب ہے، اس کی ڈھلان جنگِ احد کی یاد دلاتی ہے (فوٹو: عرب نیوز)

احد کا پہاڑ، مدینہ سے شمال کی جانب ہے اور اس کی ڈھلان جنگِ احد اور اس مقام کی یاد دلاتی ہے جہاں پیغمبرِ اسلام کے چچا حضرت حمزہ ابنِ عبدالمطلب اور لشکر کے 70 جان نثار شہید ہوئے تھے۔
آج جب حجاج اس قبرستان کے پاس سے گزرتے ہیں تو ان شہیدوں کے احترام میں چند لمحوں کے لیے خاموش ہو جاتے ہیں، جنگِ احد کی فتح پر انکساری کا اظہار اور وہاں کے نقصان سے قوت حاصل کرتے ہیں۔
اتنی ہی قوت و توانائی ’البقیع الغرقد‘ پہنچ کر ملتی ہے جسے عموماً بقیع کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ اس مقام پر پیغمبرِ اسلام کے بہت سے اہلِ خانہ اور اصحاب آسودۂ خاک ہیں۔

مدینہ کے شمال مغرب کی طرف واقع مقام خیبر ہے (فوٹو: ایس پی اے)

 ایک عرصہ بیت چکا ہے لیکن مسجدِ نبوی کے قریب واقع اس قبرستان کے پاس آ کرحجاج آج بھی دعا کرتے ہیں اور اسلام کے عہدِ رفتہ کو یاد کرتے ہیں۔ اس مقام پر حجاج کو ان شخصیات سے ایک رابطہ سا محسوس ہوتا ہے جو اسلام کے ابتدائی برسوں میں بانیِ اسلام کے ساتھ کھڑے رہے۔
مقاماتِ مقدسہ کے علاوہ بھی دیگر ایسی کئی جگہیں ہیں جو روحانیت میں بیش قیمت اضافہ کرنے کے لیے انھیں اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ ان میں مدینہ کے شمال مغرب کی طرف واقع مقام خیبر ہے جہاں اسلام کے خلاف ایک مرکزی فوجی مہم کا آغاز ہوا تھا۔ یہیں پیغمبرِ اسلام کی قیادت کے اخلاقی اور جنگی حکمتِ عملی کے مختلف پہلو یکجا ہو کر سامنے آتے ہیں۔

سعودی عرب اپنے ورثے کو لوگوں کے لیے کھول رہا ہے (فوٹو: ایس پی اےا)

فاطمہ المطیری جو کویت سے حج کے لیے آئی ہیں کہتی ہیں ’میں جدہ اور طائف میں واقع مقامات پر بھی جاؤں گی۔ مجھے مسجدِ عبداللہ ابنِ عباس جانے کا بہت شوق ہے تاکہ میں اسلام کے ایک عظیم سکالر کو خراجِ عقیدت پیش کر سکوں جنھوں نے قرآنِ پاک اور احادیث کی تشریح کے لیے بہت کام کیا اور آج بھی بہت سے علم کے متلاشی ان کے کام سے سیکھ رہے ہیں۔
حج اور عمرہ سیکٹر کے افسر محمد الشعرانی کہتے ہیں ’ہمارا مقصد، حج کے بعد حاصل ہونے والے تجربے کی قدر و قیمت بڑھانا اور اسے خوبیوں سے لیس کرنا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ حجاج سمجھیں کہ عقیدے کا یہ سفر جاری و ساری ہے۔ سعودی عرب اپنے ورثے کو ان لوگوں کے لیے کھول رہا ہے جو پیغمبرِ اسلام کے نقشِ قدم پر چلنا چاہتے ہیں۔

 

شیئر: