Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مکہ کی تاریخی مساجد جن سے اب بھی لوگ بے خبر ہیں: ماہرین

مکہ میں ایسی کئی مساجد ہیں جن کی گہری تاریخی اور مذہبی اہمیت ہے (فوٹو، العربیہ )
اسلام کے مقدس ترین شہر مکہ میں روحانی اہمیت کی وسعت صرف مسجدالحرام تک محدود نہیں بلکہ اس سے باہر تک پھیلی ہوئی ہے۔ شہر میں جا بجا وہ مساجد ہیں جو اسلامی تاریخ کے انتہائی اہم لمحات کی گواہ ہیں۔ 
عرب نیوز میں شائع مضمون کے مطابق مکہ کے ہجوم اور تیزی سے ہوتی ہوئی جدید ترقی کی وجہ سے اب بھی بہت سے حجاج یا عمرہ زائرین ان مقدس مقامات سے بے خبر ہیں۔
فواز الدھاس،ام القریٰ یونیورسٹی میں تاریخ کے پرفیسر ہیں اور کہتے ہیں کہ مکہ میں ایسی کئی مساجد ہیں جن کی گہری تاریخی اور مذہبی اہمیت ہے مگر پھر بھی ان مساجد کی طرف زیادہ توجہ نہیں رہی اور میڈیا کی بھی نظر ان پر اس طرح نہیں پڑی جیسے پڑنی چاہیے تھی۔
الدھاس نے عرفات میں مسجدِ النمرۃ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں پیغمبرِ اسلام نے حجۃ الوداع کا خطبہ دیا تھا۔ اس متبرک مسجد میں اسلام کے بنیادی عقائد و اصولوں کا اعلان کیا گیا تھا۔
انھوں نے منٰی میں واقع مسجدِ البیعۃ کا بھی ذکر کیا جہاں اسلامی تاریخ کے ایک اہم موڑ پر، انصار نے پیغبمرِ اسلام کی بیعت کی تھی جس کے نتیجے میں ہجرت کا راستہ کھلا اور اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔
الدھاس کہتے ہیں کہ ان مساجد کی اہمیت ان کے زمینی محلِ وقوع سے کہیں زیادہ ہے اور اسلامی تاریخ میں ان مساجد کے گہری سیاسی اور مذہبی امتیاز اور معنویت کو نمایاں کرتی ہے۔
انھوں نے مسجد الرایۃ کے بارے میں بتایا کہ یہاں فتحِ مکہ کے دن پیغمبرِ اسلام کا پرچم بلند کیا گیا تھا جو نہ صرف فتح کی ایک طاقتور علامت تھا مگر اس میں معافی کا اعلان بھی تھا۔
مسجدالحدیبیہ کے بارے میں بتاتے ہوئے الدھاس کا کہنا تھا کہ مکہ کے مغرب میں واقع یہ مسجد، بیعتِ رضوان کی وجہ سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں صحابہ کرام نے پیغمبرِ اسلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی جس کا حوالہ قرآنِ پاک میں بھی ہے۔

صلح حدیبیہ کے مقام پر قائم مسجد جس کے بارے میں بیشتر لوگوں کو علم نہیں(فوٹو، ایس پی اے)

اگرچہ یہ مسجد آج بھی اسی مقام پر ہے جہاں حدیبیہ کا معاہدہ طے پایا تھا، لیکن اس کے بارے میں کم لوگوں کو علم ہے، یہاں تک کے لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ مسجد ٹھیک کس جگہ پر واقع ہے۔
محمد الجود کے مطابق جو حج اور عمرہ کے سپیشلسٹ کہلاتے ہیں، یہ مساجد محض تاریخی عمارتیں نہیں بلکہ اہم تعلیمی سنگِ میل ہیں جو حج کی روحانی جہتوں کی گہرائی سے متعلق حجاج کی سمجھ بوجھ میں بیش قیمت اضافہ کرتے ہیں۔
انھوں نے منٰی میں مسجد الخیف کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ باور کیا جاتا ہے کہ یہاں پیغمبرِ اسلام اور ان کے پیشرو انبیا نے نماز ادا کی ہے، جو نبوت کے تسلسل کی ایک طاقتور علامت ہے۔ ’لیکن بہت سے حجاج کو آج بھی، اس کی اہمیت کا علم نہیں۔
انھوں نے منٰی کی الکبش مسجد کا بھی ذکر کیا جس کا تعلق حضرت اسمٰعیل کی قربانی سے ہے۔ انھوں نے کہا کہ  یہ مسجد قربانی کی اقدار اور اطاعت کی علامت ہے لیکن اس مسجد کے بارے میں میڈیا کو بھی زیادہ علم نہیں۔
الدھاس نے ان مساجد کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے انیشی ایٹیوز کی اہمیت پر زور دیا تاکہ ان مقدس مقامات کو وہ مرتبہ حاصل ہو سکے جس کے وہ حقدار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مکہ کے اسلامی ورثے کی حفاظت محض خاص سنگ ہائے میل کو محفوظ کرنا نہیں، بلکہ تاریخی طور پر ان اہم مساجد کو مقبولِ عام کرنا بھی ہے جو نبوت کے پیغام کے سفر میں کبھی انتہائی اہم مقامات سمجھے جاتے رہے ہیں۔
 

 

شیئر: