اسرائیلی حملوں نے ایرانی قیادت کو کیسے ایک کونے میں دھکیل دیا ہے
اسرائیلی حملوں نے ایرانی قیادت کو کیسے ایک کونے میں دھکیل دیا ہے
ہفتہ 14 جون 2025 15:40
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ وہ ایران میں حکومت کی تبدیلی دیکھنا چاہیں گے۔ فوٹو: اے ایف پی
اسرائیل کے ایران کی جوہری تنصیبات اور فوجی قیادت پر حملوں نے تباہی پھیلا دی ہے اور ایک کمزور تہران کے پاس اب جواب دینے کے لیے چند ہی آپشن ہیں۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز سے گفتگو میں چار علاقائی عہدیداروں نے کہا کہ ان آپشنز میں سے ایک تو بھرپور جنگ ہے جس کے لیے ایران تیار ہے اور نہ ہی جیتنے کا بظاہر کوئی امکان نظر آتا ہے۔
اسرائیل نے جمعے کی رات بھی ایران پر حملے جاری رکھے جس نے دہائیوں سے خفیہ انداز میں لڑنے والے دو حریف ملکوں کے درمیان تصادم کو ایک بڑی جنگ میں تبدیل کر دیا ہے۔
بظاہر حالیہ جنگ کی ابتدا اُس وقت ہوئی جب اکتوبر 2023 میں ایران کی اتحادی فلسطینی تنظیم حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا۔
علاقائی سلامتی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان نہیں کہ تہران اب موثر طریقے سے حملوں کا جواب دے سکے کیونکہ اس کی میزائل صلاحیتوں اور خطے میں فوجی نیٹ ورک کو اسرائیل نے غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے رپورٹ کیا کہ تہران نے جوابی کارروائی میں اسرائیل پر سینکڑوں بیلسٹک میزائل داغے۔ تاہم اسرائیل کی فوج کے مطابق ایرانی میزائلوں کی تعداد سو سے بھی کم تھی اور ان میں سے زیادہ تر کو مار گرایا گیا یا وہ راستے میں ہی تباہ ہو گئے۔ فوری طور پر اسرائیل میں جانی نقصان کی اطلاعات نہیں ملیں۔
علاقائی سلامتی کے ذرائع نے بتایا کہ ایران کے رہنما جو پہلے ہی مشکل میں ہیں اور اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، اسرائیل کے فوجی دباؤ کے سامنے کمزور دکھائی دینے کے متحمل نہیں ہو سکتے، جس سے کشیدگی میں اضافے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کیونکہ وہ اسرائیل پر خفیہ طریقوں سے حملوں یا پھر جوہری طاقت کے حصول کی کوششوں کو مزید تیز کرنے کے آپشن کی طرف جا سکتے ہیں۔
بیروت میں ایک تھنک ٹینک کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر سے وابستہ تجزیہ کار موہاند ہیگ علی نے کہا کہ ’اگر وہ ہتھیار ڈال دیں تو زندہ نہیں رہ سکتے۔ انہیں اسرائیل کے خلاف سخت حملہ کرنے کی ضرورت ہے لیکن ان کے آپشنز محدود ہیں۔ میرے خیال میں ان کا اگلا آپشن جوہری عدم پھیلاؤ (این پی ٹی) کے معاہدے سے دستبرداری ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ این پی ٹی سے دستبرداری ایک سنگین قدم ہو گا کیونکہ یہ اس بات کا اشارہ ہو گا کہ ایران جوہری بم کے لیے ہتھیاروں کے درجے کی یورینیم تیار کرنے کے افزودگی پروگرام کو تیز کر رہا ہے۔
ایرانی قیادت نے تاحال تصدیق نہیں کی کہ وہ اتوار کو مسقط میں اپنے جوہری پروگرام پر پہلے سے طے شدہ شیڈول کے تحت امریکہ سے مذاکرات میں حصہ لے گا۔
غزہ میں حماس سے لے کر لبنان میں حزب اللہ تک، یمن میں حوثیوں اور عراق میں ملیشیاؤں پر اسرائیل کے حملوں کے ساتھ ساتھ ایران کے قریبی اتحادی شام کے سابق آمر بشار االاسد کی بے دخلی سے تہران کا علاقائی اثر کمزور ہوا ہے۔
دو علاقائی ذرائع کے مطابق ایران کے کم از کم 20 سینیئر فوجی عہدیدار اسرائیلی حملوں میں مارے گئے ہیں۔ فوٹو: روئٹرز
مغربی پابندیوں نے ایران کی تیل کی اہم برآمدات کو بھی متاثر کیا ہے اور معیشت بحرانوں کے ایک سلسلے سے دوچار ہے جس میں کرنسی کی گرتی ہوئی شرح اور مہنگائی کے ساتھ تہران کو توانائی اور پانی کی کمی کا بھی سامنا ہے۔
علاقائی تجزیہ کار سارکس نایوم نے کہا کہ ’اب وہ اپنی کسی بھی پراکسی کے ذریعے جواب نہیں دے سکتا۔ اسرائیل نے ایرانی پراکسیوں کی بادشاہت کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ختم کر دیا ہے۔ اور اب اس نے ایران کے اندر حملوں سے اُس کی طاقت کے بارے میں شکوک پیدا کیے ہیں۔‘
تہران اور دیگر شہروں میں اہم تنصیبات کو نشانہ بناتے ہوئے اسرائیل کے حملے جمعے کی شب بھی جاری رہے۔ ایرانی وزارت خارجہ نے روئٹرز کی جانب سے رابطے پر سوالوں کے جواب نہیں دیے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے جمعے کے روز کہا تھا کہ اسرائیل نے جنگ شروع کی ہے اور اسے ’تلخ انجام‘ سے دوچار ہونا پڑے گا۔
تھنک ٹینک گلف ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالعزیز سیگر نے کہا کہ ایران کو ایک کونے میں دھکیل دیا گیا ہے اور اس کے پاس آپشن محدود ہیں۔ ایک امکان یہ ہوگا کہ وہ اندرون خانہ یقین دہانیاں کرائے کہ وہ یورینیم کی افزودگی کو ترک کردے گا اور اپنی جوہری صلاحیتوں کو ختم کردے گا، کیونکہ اس طرح کے سر تسلیم خم کرنے کا کوئی بھی عوامی اعلان ممکنہ طور پر ملک کے اندر سخت عوامی ردعمل کو جنم دے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایک اور آپشن میں خفیہ جنگ یا پراکسی وار کی طرف واپسی ہو سکتی ہے جو 1980 کی دہائی میں امریکی اور اسرائیلی سفارت خانوں اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے والے بم دھماکوں کی یاد دلاتی ہے۔
ایک تیسرا اور کہیں زیادہ خطرناک آپشن جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے دستبردار ہونا اور یورینیم کی افزودگی کے پروگرام کو تیز کرنا ہے۔
ڈاکٹر سیگر نے خبردار کیا کہ ایسا اقدام اعلانِ جنگ کے مترادف ہوگا اور تقریباً یقینی طور پر ایک مضبوط بین الاقوامی ردعمل کو جنم دے گا جو نہ صرف اسرائیل کی طرف سے ہوگا بلکہ امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کی طرف سے بھی آئے گا۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے میں کامیاب نہ ہو فوجی کارروائی کی دھمکی دے چکے ہیں۔
انھوں نے جمعرات کے روز اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی امیدوں کو مکمل طور پر ترک کر دینا چاہیے۔‘
عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے مطابق ایران اس وقت 60 فیصد تک خالص یورینیم افزودہ کر رہا ہے جبکہ جوہری ہتھیار بنانے کے لیے افزودگی کو تقریباً 90 فیصد کے قریب لے جانا ہوتا ہے۔
گزشتہ برس حزب اللہ پر اسرائیل کی بمباری نے گروپ کو بری طرح سے کمزور کر دیا۔ فوٹو: اے ایف پی
ایجنسی کا تخمینہ ہے کہ ایران کے پاس اس سطح پر کافی مواد ہے اگر مزید کام کرے تو وہ 9 جوہری بم بنا سکتا ہے۔
جمعرات کو جب رات گئے اسرائیل کے حملوں میں ایران کی جوہری تنصیبات، بیلسٹک میزائل فیکٹریوں، فوجی کمانڈروں اور جوہری سائنسدانوں کو نشانہ بنایا گیا تو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ یہ تہران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے ایک طویل کارروائی کا آغاز ہے۔
دو علاقائی ذرائع کے مطابق ایران کے کم از کم 20 سینیئر فوجی عہدیدار اسرائیلی حملوں میں مارے گئے ہیں۔ افواج کے چیف آف سٹاف میجر جنرل محمد باقری، پاسداران انقلاب کے سربراہ حسین سلامی، اور پاسداران انقلاب کی ایرو سپیس فورس کے سربراہ امیر علی حاجی زادہ مارے جانے والی فوجی قیادت میں شامل ہیں۔
تھنک ٹینک کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر سے وابستہ تجزیہ کار موہاند ہیگ علی نے کہا کہ ’یہ ایک بڑا حملہ تھا، بڑے نام، بڑے رہنما مارے گئے اور ایرانی فوجی قیادت اور بیلسٹک میزائلوں کو بڑا نقصان پہنچا۔ یہ غیرمعمولی ہے۔‘
اسرائیل کے نیشنل سکیورٹی سٹڈیز انسٹیٹیوٹ کی ریسرچر سیما شائن کا کہنا ہے کہ امریکی مدد کے بغیر اسرائیل کے لیے ایران کے ایٹمی پروگرام کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’اس لیے اگر امریکہ اس جنگ کا حصہ نہیں ہوگا تو میرے خیال میں ایران کے جوہری پروگرام کا کچھ حصہ بچا رہے گا۔‘
ایرانی اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے ایک علاقائی عہدیدار نے کہا کہ جمعے کو کیے گئے اسرائیلی حملوں نے نہ صرف سٹریٹیجک نقصان پہنچایا بلکہ ایران کی قیادت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
عہدیدار نے کہا کہ للکارنے والی حکمران اشرافیہ کے اندر اب تشویش اور غیریقینی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ بند دروازوں کے پیچھے بے چینی بڑھ رہی ہے، نہ صرف بیرونی خطرات سے بلکہ ملک کے اندر اقتدار پر ان کی گرفت بھی کمزور ہو رہی ہے۔
سینیئر علاقائی عہدیدار نے کہا کہ ’ایرانی قیادت میں خوف پیدا ہو گیا ہے جو مزید حملوں کے خطرے سے بھی زیادہ ہے، ایک گہرا اور بہت زیادہ خوف جو ملک کے اندر بدامنی کا ہے۔‘
علاقائی تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی حکومت کمزور ہو کر جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
ایک اعتدال پسند سابق ایرانی عہدیدار نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر ایران کے پاسداران انقلاب کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی سنہ 2020 میں بیرون ملک ہلاکت نے اس نظام کے گلنے سڑنے کا آغاز کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد سے اسلامی جمہوریہ نے پورے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بحال کرنے کے لیے جدوجہد کی جو کبھی مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکی ہے۔ اور اسرائیل کا حملہ اختتام کا آغاز ہو سکتا ہے۔
سابق عہدیدار نے کہا کہ اگر ملک میں مظاہرے پھوٹ پڑتے ہیں اور قیادت جبر کے ساتھ کچلنے کی کوشش کرتی ہے تو اس سے مزید خرابی جنم لے گی۔ عوامی غصہ برسوں سے اُبل رہا ہے جو پابندیوں، مہنگائی اور اختلاف رائے پر سخت کریک ڈاؤن کی وجہ سے پیدا ہوا۔
حملوں کے فوراً بعد اپنے ویڈیو خطاب میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ وہ ایران میں حکومت کی تبدیلی دیکھنا چاہیں گے۔
انہوں نے ایرانی عوام سے کہا کہ ’ہماری لڑائی آپ سے نہیں، ہماری لڑائی اس سفاک آمریت سے ہے جس نے 46 سال سے آپ پر ظلم کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی آزادی کا دن قریب ہے۔‘
اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے ایران میں حکومت تبدیلی کی بات کرنا واضح کرتا ہے کہ حملوں میں ایرانی فوجی قیادت کو اسی وجہ سے نشانہ بنایا گیا جس نے ایرانی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو افراتفری کی حالت سے دوچار کر دیا ہے۔
سیما شائن نے کہا کہ ’یہ لوگ بہت اہم، بہت تجربہ کار، اپنے عہدوں پر کئی برسوں سے براجمان تھے اور حکومت کے استحکام، خاص طور پر سکیورٹی کا ایک بہت اہم جزو تھے۔‘
ایران کے سرکاری میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ کم از کم دو ایٹمی سائنسدان فریدون عباسی اور محمد مہدی تہرانچی تہران میں اسرائیلی حملوں میں مارے گئے۔
نتنز میں ایران کی جوہری تنصیبات کی ایک سیٹلائیٹ تصویر۔ فوٹو: اے ایف پی
اسرائیل کو جواب دینے کے لیے لبنان کی حزب اللہ اب سب سے کمزور پوزیشن میں ہے جو خطے میں ایران کا سب سے طاقتور پراکسی مسلح گروپ سمجھا جاتا ہے۔
ایران پر اسرائیلی حملوں سے کچھ دن پہلے حزب اللہ کے قریبی سکیورٹی ذرائع نے روئٹرز کو بتایا تھا کہ یہ گروپ ایران کی طرف سے کسی بھی انتقامی کارروائی میں شامل نہیں ہوگا اس خوف سے کہ اس طرح کے ردعمل سے لبنان پر ایک نئی اسرائیلی بمباری شروع ہو سکتی ہے۔
گزشتہ برس حزب اللہ پر اسرائیل کی بمباری نے گروپ کو بری طرح سے کمزور کر دیا، اور اس کی قیادت ختم ہو گئی۔ گروپ کے ہزاروں جنگجو مارے گئے اور جنوبی لبنان اور بیروت کے مضافات میں اس کے مضبوط ٹھکانے تباہ ہو گئے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ ٹرمپ ایران کو جوہری مذاکرات کی میز پر واپس لانے کے لیے اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
علاقائی امور کے ماہر سارکس نایوم نے کہا کہ ’ایک چیز واضح ہے: ایرانی سلطنت زوال پذیر ہے، کیا وہ اب بھی اپنے زوال کی شرائط طے کر سکتے ہیں؟ فوجی ذریعے سے نہیں۔ ایسا کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے، مذاکرات کے ذریعے۔‘