Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران کے سرکاری ٹی وی پر بمباری صحافیوں پر اسرائیلی حملوں کی کڑی ہے

سنہ 2014 میں اسرائیلی حملے میں غیرملکی میڈیا ورکرز بھی مارے گئے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پریس فریڈم کے بین الاقوامی گروپس نے تہران میں سرکاری ٹی وی پر بمباری کو اسرائیلی فوج کی جانب سے میڈیا ورکرز پر حملوں کے تازہ سلسلے کی کڑی قرار دیا ہے۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق پیر کو تہران میں اسرائیلی حملے سے براہ راست نشریات میں خلل پڑا جبکہ سرکاری میڈیا نے بتایا کہ کم از کم دو کارکن مارے گئے اور متعدد دیگر زخمی ہوئے۔
حملے میں نیوز ایڈیٹر نیما رجبپور اور سیکریٹریٹ کی کارکن معصومہ عظیمی ماری گئی تھیں۔
آن لائن وسیع پیمانے پر شیئر کی جانے والی فوٹیج میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نیوز نیٹ ورک کی اینکر سحر امامی کو حملے کے بعد سٹوڈیو سے بھاگتے ہوئے دیکھا گیا اور سکرین پر دھواں بھر گیا تھا۔
اس حملے سے عمارت تباہ ہو گئی وہاں رات بھر آگ لگی رہی۔ اسرائیل نے فوری طور پر ایرانی سرکاری ٹی وی پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔
اسرائیلی وزیر دفاع نے حملے سے لگ بھگ ایک گھنٹہ پہلے ایک انتباہ جاری کرتے ہوئے ایرانی سرکاری ٹی وی کو ’پروپیگنڈہ اور اکسانے والا میگا فون‘ قرار دیا تھا۔
اس انتباہ میں تہران کے وسطی علاقے میں موجود تین لاکھ 30 ہزار رہائشیوں سے کہا گیا تھا کہ وہ وہاں سے نکل جائیں۔
اس حملے کی ایرانی حکام کی جانب سے شدید مذمت کی گئی۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے اسے ’جنگی جرم کا ایک مذموم فعل‘ قرار دیتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ میڈیا پر حملے کے لیے اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرائے۔
اسماعیل بقائی نے ایکس پر لکھا کہ ’دنیا دیکھ رہی ہے۔ اسرائیلی حکومت سچائی کی سب سے بڑی دشمن ہے اور صحافیوں اور میڈیا کے لوگوں کی سب سے بڑی قاتل ہے۔‘
گزشتہ جمعے کو اسرائیل نے ایرانی جوہری اور فوجی تنصیبات پر فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ چھ دنوں سے یہ حملے جاری ہیں اور ایران نے جوابی کارروائی میں اسرائیل پر میزائل داغے ہیں۔
ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کا مقصد بتاتے ہوئے اسرائیلی حملوں نے ملک کے جوہری ڈھانچے اور فوجی کمان کو کافی نقصان پہنچایا۔ ان حملوں میں متعدد اعلیٰ سطح کے فوجی کمانڈر ہلاک ہوئے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل کو جوابدہ نہ ٹھہرانے پر صحافیوں کے خلاف اس کے حملوں میں اضافہ ہوا۔ فوٹو: اے ایف پی

ایران نے اسرائیل کے شہروں اور فوجی اڈوں کو میزائلوں سے جوابی کارروائی میں نشانہ بنایا ہے۔ دونوں طرف شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے اور تہران اور تل ابیب جیسے بڑے شہروں میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔
ایران کے سرکاری ٹی وی پر اسرائیلی حملہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ میڈیا ورکرز کو بھی جنگ میں استثنیٰ کا قائل نہیں۔
صحافیوں کے تحفظ کی تنظیم ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ کی علاقائی ڈائریکٹر سارہ قداح نے کہا کہ وہ ’ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل پر اسرائیل کے حملے سے دہشت زدہ ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی طور پر اسرائیل کی ایسی کاررائیوں پر سرزنش نہ ہونے کی وجہ سے ’اس کی خطے میں دیگر جگہوں پر میڈیا کو نشانہ بنانے کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔‘
سوس (ایس او اے ایس) یونیورسٹی آف لندن میں عالمی میڈیا اور ڈیجیٹل کلچرز کے لیکچرر لوریلی ہان ہیریرا نے بھی لگ بھگ یہی بات کی۔
انہوں نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مغربی طاقتوں نے اسرائیل کو تاریخی طور پر ایک ایسی غیرمعمولی حیثیت میں ڈھال دیا ہے جس نے اس کو منظم طریقے سے بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرنے کی اجازت دی ہے، اب وہ بغیر کسی جوابدہی کے یا کسی قانونی، مالی، فوجی یا سفارتی اثرات کے ایسی کارروائیاں کرتا ہے۔‘
لوریلی ہان پیریرا نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کو نہ صرف فلسطین اور ایران پر حملہ کرنے کا حوصلہ ملا۔ اس نے گزشتہ مہینوں میں لبنان میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کی۔ اور یمن و شام پر بھی بمباری کی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جنگ زدہ علاقوں میں میڈیا کارکنوں کے خلاف اسرائیل کی کارروائیوں کو پریس کی آزادی کی تنظیمیں طویل عرصے سے دستاویزی شکل دے رہی ہیں مگر جوابدہی کے بار بار مطالبات کے باوجود اسرائیل کو مغربی دنیا کی جانب سے کسی ردعمل کا سامنا نہیں۔‘

مئی 2022 میں فلسطینی نژاد امریکی صحافی شیرین ابو عاقلہ کو جنین میں ایک کارروائی کے دوران قتل کیا گیا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

سوس (ایس او اے ایس) یونیورسٹی آف لندن میں پروفیسر آف پولیٹیکل کمیونیکیشن اینڈ عرب میڈیا دینا ماتر نے کہا کہ ’اسرائیل کے پاس ایک اعلٰی درجے کی سیاسی کمیونیکیشن حکمت عملی ہے جو اس کے پروپیگنڈے پر مبنی ہے جس کے ذریعے اس نے اپنی مظلومیت اور اپنے دفاع کے حق کے بارے میں بیانات کو دہرانے سے مغرب میں عوامی رائے کو کنٹرول کیا ہوا ہے۔‘
تہران میں پیر کا حملہ 7 اکتوبر 2023 سے غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کے میڈیا پر حملوں کی عکاسی کرتا ہے۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے مطابق ’دہشت گردوں کو ختم کرنے‘ کا بیان دے کر اسرائیل نے فلسطین اور لبنان میں کم از کم 183 صحافیوں کو قتل کیا ہے۔
دیگر تنظیموں کے مطابق اسرائیلی حملوں میں 220 صحافی مارے گئے۔
رواں سال شائع کی گئی ایک الگ رپورٹ میں براؤن یونیورسٹی غزہ کے تنازعے کو ’صحافیوں کے لیے اب تک کی بدترین‘ جنگ قرار دیا ہے۔
رپورٹ کا عنوان ’خبروں کا قبرستان: جنگی علاقوں سے رپورٹ کرنا کتنا خطرناک‘ ہے۔ اس ریسرچ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں اُس سے زیادہ صحافیوں مارے گئے جتنے امریکہ کی لڑی گئی تمام جنگوں میں قتل ہوئے۔
رپورٹ کو اسرائیلی قوم پرستوں نے فوری طور پر مسترد کرتے ہوئے اس کو ’کچرا{ قرار دے دیا اور کہا کہ اس میں یہ خامی ہے کہ ہلاک ہونے والے صحافیوں کو عسکریت پسندی کی سرگرمیوں سے منسلک نہیں کیا گیا۔
ایک سینئر اسرائیلی افسر نے گزشتہ سال ہلاکتوں کی وجہ بمباری کے پیمانے اور شدت کو قرار دیا اور کہا کہ ’صحافیوں کو نشانہ بنانے کی کوئی پالیسی نہیں۔‘
لیکن ہان ہیریرا اس سے متفق نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل نہ صرف صحافیوں کو نشانہ بنا رہا ہے بلکہ وہ صحافیوں کے خاندانوں کو بھی نشانہ بناتا تاکہ ان کو فلسطین میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے اسرائیلی جنگی جرائم کی کوریج سے روکا جا سکے اور ایسا کرنے کی سزا دی جا سکے۔‘
ہان ہیریرا نے کئی مثالیں پیش کیں جہاں اسرائیل نے صحافیوں کو اور ان کے خاندانوں کو نشانہ بنا کر سزا دینے کا طریقہ اختیار کیا۔ ایک معاملہ الجزیرہ کے غزہ کے بیورو چیف وائل دحدود کا تھا، جو اس وقت لائیو خبر دے رہے تھے جب انہیں معلوم ہوا کہ اکتوبر 2023 میں اسرائیلی فضائی حملے میں ان کی بیوی، بیٹی، بیٹا اور پوتا مارے گئے ہیں۔
ایک اور حالیہ کیس فوٹو جرنلسٹ فاطمہ حسنہ کا ہے جنہیں خاندان کے کئی افراد کے ہمراہ قتل کر دیا گیا تھا۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ دونوں حملوں کا مقصد حماس کے کارکنوں کا خاتمہ تھا، لیکن ناقدین کہتے ہیں کہ یہ حملے اجتماعی سزا کے ذریعے غزہ کی کوریج کو خاموش کرنے کی وسیع حکمت عملی کی عکاسی کرتے ہیں۔
اسرائیل پر صحافیوں کو نشانہ بنانے کے الزامات گزشتہ 20 ماہ سے بہت پہلے بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
دینا ماتر نے 1972 میں بیروت میں مصنف غسان کنافانی کے قتل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اسرائیل کی فلسطینی صحافیوں کو نشانہ بنانے کی ایک طویل اور دستاویزی تاریخ ہے۔‘
کنافانی کو اپنے عہد کا ایک سرکردہ ناول نگار اور عرب دنیا کے معروف فلسطینی مصنفین میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔
وہ اپنی 17 سالہ بھتیجی لیمیس کے ساتھ کار میں نصب ایک دھماکہ خیز آلے سے مارے گئے تھے، یہ بم اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے نصب کیا تھا اور بعد میں اس کی ذمہ داری بھی قبول کر لی تھی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق غزہ میں اسرائیلی فوج نے صحافیوں کے خاندان کو بھی نشانہ بنایا۔ فوٹو: اے ایف پی

مئی 2022 میں فلسطینی نژاد امریکی صحافی شیرین ابو عاقلہ کو جنین میں ایک کارروائی کے دوران ایک اسرائیلی فوجی نے کپڑوں پر واضح پریس لکھے جانے کے باوجود گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
ابتدا میں نے مختلف دعوے کیے تاہم آزاد تحقیقات اور اقوام متحدہ نے فوری طور پر اسرائیلی دعوے کو غلط ثابت کر دیا۔
2025 کی ایک دستاویزی فلم نے ابو عاقلہ پر گولی چلانے والے مشتبہ شوٹر کی شناخت کی لیکن کسی کو جوابدہ نہیں ٹھہرایا گیا۔
سنہ 2014 میں اسرائیلی حملے میں غیرملکی میڈیا ورکرز بھی مارے گئے ہیں۔ اطالوی صحافی سیمون کیملی اور ان کے فلسطینی ساتھی علی شھدا ابو عفاش اس وقت ہلاک ہو گئے جب وہ غزہ میں رپورٹنگ کر رہے تھے ایک اسرائیلی بم پھٹ گیا تھا۔
2003 میں ویلش کے دستاویزی فلم ساز جیمز ملر کو رفح میں فلم بندی کے دوران اسرائیلی فورسز نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
اس سے ایک سال پہلے اطالوی فوٹو جرنلسٹ رفالی سیرلو کو دوسری انتفادہ کے دوران رام اللہ میں اسرائیلی فوج نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا، جو اس تنازعے میں مارا جانے والا پہلا غیرملکی صحافی تھا۔
ان میں سے کسی بھی واقعے پر اسرائیلی فوج میں کسی کو کبھی جوابدہ نہیں ٹھہرایا گیا۔

شیئر: