سفارت کاری کے لیے پُرعزم، مگر زبردستی کا امن، امن نہیں ہوتا: ایرانی سفیر
سفارت کاری کے لیے پُرعزم، مگر زبردستی کا امن، امن نہیں ہوتا: ایرانی سفیر
اتوار 29 جون 2025 8:59
جاپان میں ایران کے سفیر نے عرب نیوز کو انٹرویو میں اپنے ملک کے موقف کو کھل کر بیان کیا (فوٹو: عرب نیوز)
ایرانی سفارت کار نے ایٹم بم کا نشانہ بننے والے واحد ملک میں بیٹھ کر مطالبہ کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتے جوہری تناؤ کے موقع پر سفارت سفارت کاری کی طرف پلٹا جائے۔
جاپان میں ایران کے سفیر پیمان سیدات نے عرب نیوز کو انٹرویو میں بتایا کہ ان کے ملک کے دروازے مذاکرات کے لیے کھلے ہیں تاہم ساتھ ہی خبردار بھی کیا کہ ’زبردستی قائم کیا جانے والا امن، امن نہیں ہوتا۔‘
چند روز پیشتر ہی ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکہ کی جانب سے حملے کیے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’حقیقی سفارت کاری اختلافات کے باوجود باہمی احترام، برابری اور فریقین کے درمیان تسلی بخش نتائج پر مبنی ہوتی ہے۔‘
مذاکرات کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ ’ایرانی حکام اس وقت مذاکرات کی بحالی کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
ایرانی سفارت کار کا یہ تبصرہ اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے بعد سامنے آیا ہے، جو 24 جون کو جنگ بندی پر منتج ہوئی تھی۔
انہوں نے امریکہ اور اسرائیل دونوں پر جارحیت کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ جوہری تنصیبات پر حملے امریکہ کے ساتھ طے شدہ مذاکرات سے دو روز قبل کیے گئے، جس سے بداعتمادی کی خلیج گہری ہوئی۔
ان کے مطابق ’بجائے اس کے کہ مذاکرات میں خلل ڈالنے کی مذمت کی جاتی امریکہ جارح کے ساتھ جا کھڑا ہو گیا اور انہوں نے اسی مذاکراتی عمل کو دھوکہ دیا جس کا وہ حصہ تھے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’وہ دونوں جارحیت میں شریک تھے جس کو انہوں نے ہمارے پرامن جوہری مقامات پر حملے کر کے ثابت کیا۔ یوں امریکہ بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی سنگین خلاف ورزیوں میں اسرائیل کے ساتھ شامل رہا۔‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر ایران نے دوبارہ جوہری پروگرام شروع کیا تو اس پر پھر حملہ کیا جائے گا (فوٹو: گیٹی امیجز)
جنگ بندی کے معاہدے کے بعد ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے پہلے بیان میں فتح کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ’ایران نے بدلے میں قطر میں امریکی بیس پر حملہ کر کے امریکہ کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔
انہوں نے خبردار بھی کیا کہ آئندہ ہونے والی کسی بھی کارروائی کے جواب میں امریکی اہداف کو نشانہ بنایا جائے گا۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خامنہ ای کے فتح کے دعوے کا مذاق اڑاتے ہوے کہا کہ ایران کی جوہری تنصیبات کو مٹا دیا گیا ہے۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اگرچہ انہوں نے خامنہ کے قتل کے مںصوبے پر غور کیا تھا لیکن پھر اسے مسترد کر دیا تھا۔
ان کے مطابق ’امریکہ یا اسرائیل سے براہ راست حملے روک کر ایرانی لیڈر کو ایک بری موت سے بچایا۔‘
امریکہ نے 27 جون کو ایران کی جوہری تنیصبات پر بمباری کی تھی (فوٹو: اے پی)
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے خامنہ ای کے بیانات کے بعد ایران پر سے پابندیاں ہٹانے کے منصوبے کو روک دیا ہے اور خبردار کیا کہ اگر ایران نے افزودگی دوبارہ شروع کی اس پر دوبارہ بمباری پر یقیناً غور کیا جائے گا۔
سنیچر کو ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے صدر ٹرمپ کے بیانات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ممکنہ جوہری معاہدہ اس امر پر منحصر کہ امریکہ سپریم لیڈر کے حوالے سے نامناسب لہجہ ختم کرے۔
جاپان میں ایرانی سفیر پیمان سیدات کا کہنا تھا کہ ایران سفارت کاری کے لیے پرعزم ہے۔
’ایران ہمیشہ سے حقیقی سفارت کاری میں شامل رہا ہے لیکن طاقت کے ذریعے قائم کیا جانے والا امن، امن نہیں ہوتا۔ ہم جارحیت کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ہم ہر لحاظ چوکس رہتے ہوئے صورت حال کا جائزہ لیتے رہیں گے کہ حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔‘
ایک ایسے وقت میں کہ جب اسرائیل اور ایران کے درمیان سفارتی تناؤ برقرار ہے، اسرائیلی حکام کی جانب سے اسے مزید بڑھانے کا اشارہ دیا گیا ہے۔
26 جون کو اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی صدر اسرائیل کو اس بارے میں گرین سگنل دے چکے ہیں کہ اگر ایران جوہری پروگرام بڑھائے تو اس پر دوبارہ حملہ کیا جائے گا۔