Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مثبت اشارے ملے ہیں، جنگ بندی کے لیے سنجیدہ ہیں: اسرائیل

بدھ کے روز ایک بیان میں، حماس نے کہا کہ وہ جنگ بندی کی نئی تجاویز کا جائزہ لے رہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈیون سار نے بدھ کے روز کہا کہ ان کا ملک فلسطینی تنظیم حماس کے ساتھ غزہ میں جنگ ختم کرنے اور وہاں یرغمال بنائے گئے افراد کی واپسی کے لیے معاہدہ کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اسرائیل نے حماس کے ساتھ 60 دن کی جنگ بندی کو حتمی شکل دینے کے لیے ضروری شرائط قبول کر لی ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ٹرمپ نے یہ اعلان امریکی نمائندوں اور اسرائیلی حکام کے درمیان ہونے والی طویل اور نتیجہ خیز ملاقات کے بعد کیا۔
ایسٹونیا کے دارالحکومت ٹالن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران، گیڈیون سار نے کہا کہ ’ہم یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے سنجیدہ ہیں۔ ہم نے (امریکی) خصوصی ایلچی اسٹیو وِٹکوف کی تجاویز کو قبول کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’کچھ مثبت اشارے موجود ہیں۔ میں اس سے زیادہ ابھی کچھ نہیں کہنا چاہتا، لیکن ہمارا مقصد ہے کہ جلد از جلد بات چیت شروع کی جائے۔"
گیڈیون سار نے ایسٹونیا کے وزیر خارجہ مارگس زاخکنا سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں مزید کہا کہ ’لیکن یہ بات واضح ہونی چاہیے: حماس نہ صرف 7 اکتوبر 2023 کو اس جنگ کے آغاز کی ذمہ دار ہے، بلکہ اس کے تسلسل کی بھی ذمہ داری اسی پر عائد ہوتی ہے۔ حماس پر دباؤ ڈالنا ضروری ہے۔ عالمی برادری کو اب امریکی اقدامات کی حمایت کرنی چاہیے اور حماس کے کسی بھی وہم و گمان کو توڑ دینا چاہیے۔
بدھ کے روز ایک بیان میں، حماس نے کہا کہ وہ جنگ بندی کی نئی تجاویز کا جائزہ لے رہی ہے جو اسے ثالثی کرنے والے ممالک مصر اور قطر سے موصول ہوئی ہیں۔
تاہم، حماس نے اس بات پر زور دیا کہ وہ ایک ایسے معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے جو جنگ کے خاتمے اور اسرائیلی افواج کے غزہ سے انخلا کو یقینی بنائے۔

 

شیئر: