’صابن فلاپ ہو جائے گا‘: ایک ’سنگل ماں‘ کے خواب نے کئی خواتین کی زندگی بدل ڈالی
ہفتہ 31 مئی 2025 5:58
رابعہ اکرم خان- اردو نیوز، اسلام آباد
’میری فیملی نے پہلے ہی سے یہ سوچ لیا تھا کہ صابن بنانے کا کاروبار فلاپ ہوگا۔ تم بیوٹی پارلر یا بوتیک کھول لو کیونکہ پشاور جیسے علاقے میں ایک سنگل پیرنٹ کے لیے پروڈکشن اور مارکیٹنگ کا کام کرنا مشکل ہے۔‘
پشاور کی صائمہ محبوب جن کے لیے یہ بتانا بھی مشکل ہوتا تھا کہ وہ تین بیٹیوں کی ’سنگل پیرنٹ‘ ہیں، آج نہ صرف اپنا ایک کامیاب کاروبار چلا رہی ہیں بلکہ اب اپنے ٹریننگ سینٹر میں 60 قسم کے ایسے چھوٹے کاروبار خواتین کو سکھا رہی ہیں جو ان کی مالی مشکلات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں خواتین ملک کی کل آبادی کا تقریباً 49 فیصد ہیں لیکن کاروباری شعبے میں ان کی نمائندگی انتہائی کم ہے۔ 2020 میں ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار میں صرف آٹھ فیصد خواتین ہیں۔ جبکہ خیبر پختونخوا ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق صوبے میں صرف دو فیصد خواتین کاروبار سے وابستہ ہیں۔
صائمہ محبوب کو 2022 میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ایک غیرسرکاری ادارے کے ساتھ کام کرتے ہوئے خواتین کے لیے روزگار کے مواقع ڈھونڈنے کا خیال آیا تھا۔
’جب میں چارسدہ میں سیلاب سے متاثرہ خواتین کے لیے کھڈی کے کپڑوں کا کارخانہ لگایا تو میں نے سوچا کہ پشاور میں بھی ایسا کام شروع ہو سکتا ہے اور وہی سے میں نے پہلا قدم لے لیا۔‘
2022 میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے پاکستان کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا تھا جس کے نیتجے میں 33 لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے جن میں نصف بچے اور خواتین تھے۔
ایک برس قبل پاکستان کے مقامی میڈیا چینل کو اپنے صابن کے کارخانے کے بارے میں انٹرویو دیتے ہوئے شاید صائمہ محبوب کے ذہن میں یہ خیال بھی نہیں آیا ہوگا کہ وہ 60 مختلف قسم کے کاروبار کی تربیت دیں گی، جن سے 200 خواتین مستفید ہوں گی۔
انہوں نے سنہ 2022 میں ہی ’زِمل بیوٹی اور ہربل‘ صابن کی فیکٹری صرف ایک مشین کے ساتھ شروع کی جس کے خریدنے میں ایک دوست نے ان کی مدد کی تھی۔

’زندگی ختم نہیں ہوتی‘
صائمہ محبوب جو آج کل خیبر پختونخوا ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی جنرل سیکریٹری ہیں، سرکاری اور غیرسرکاری اداروں میں بھی کام کر چکی ہیں۔
’میں نے سمال انڈسٹری میں خواتین کو لانے کی کوشش کی ہے، مجھ سے اکثر ایسی خواتین رابطہ کرتی ہیں جو مالی مشکلات سے گزر رہی ہیں۔ مجھ پر خود یہ مرحلہ گزر چکا ہے، ایک وقت ایسا بھی تھا جب میں سمجھ رہی تھی کہ زندگی ختم ہو گئی ہے اور اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر اللہ نہ چاہے تو کچھ ختم نہیں ہو سکتا اور آپ دوبارہ سٹارٹ لے سکتے ہیں۔‘
’وہ بیٹی جسے سسرال والے پیدا ہونے سے پہلے مار دینا چاہتے تھے، آج وہی میری طاقت ہے‘
2017 میں صائمہ محبوب کے لیے زندگی اس وقت مشکل ہوگئی جب بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے سسرالیوں کی جانب سے ان پر دباؤ تھا۔
’جب میں چھ ماہ کی حاملہ تھی تو میرے سسرالیوں نے کہا کہ الٹراساؤنڈ کراؤ۔ جب الٹرا ساؤنڈ کروایا تو معلوم ہوا کہ اس بار بھی بیٹی ہے۔ جس کے بعد سسرالیوں نے اسقاط حمل کے لیے دباؤ ڈالا اور انکار پر مجھے گھر سے نکال دیا۔ میں آج شکر کرتی ہیں کہ میں دباؤ میں نہیں آئی۔ وہ ہی بیٹی میری طاقت ہے۔ آج اسی بیٹی کے نام پر صابن کا برانڈ ہے اور وہی بیٹی موسمیاتی تبدیلی کے لیے بھی کام کر رہی ہے۔‘
ان کے مطابق پہلے کمسن بیٹیوں کے ساتھ کام کا آغاز کیا تھا، آج ایک پوری ٹیم ساتھ ہے۔ ’میری تین بیٹیاں ہیں۔ سب سے چھوٹی بیٹی سات سال کی ہے۔ شروع میں میری بیٹیاں ہی میرے ساتھ کام کرتی تھیں۔ میں چاہتی تھی کہ وہ دیکھیں کہ ایک سنگل ماں کیسے اپنے بچوں کو پالنے کے لیے محنت کرتی ہیں۔ ان سے چھوٹے چھوٹے کام بھی کرواتی تھی تاکہ وہ عملی زندگی کا مشاہدہ کر سکیں۔‘
صائمہ نے مزید بتایا کہ ’پہلے میں اس بات کو چھپاتی تھی کہ میں ایک سنگل پیرنٹ ہوں، لیکن اب میں خود بتاتی ہوں اور خواتین سے کہتی ہوں کہ زندگی کہیں بھی ختم نہیں ہوتی۔ آپ کسی بھی مقام سے دوبارہ آغاز کر سکتی ہیں۔‘

مارکیٹ میں مشکلات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’ہمارا کلچر ایسا ہے کہ اگر خواتین مارکیٹ کی طرف جائیں تو کافی برا سمجھا جاتا ہے۔ جب میں نے صابن کی فروخت شروع کی تو پہلے مقامی مارکیٹ پیپل منڈی گئی۔ وہاں مردوں نے حیرت سے دیکھا کہ ایک خاتون صابن فروخت کر رہی ہیں۔ تو انہوں نے میری مدد بھی کی اور مجھ سے صابن کے نمونے لے کر دکانوں میں دیے۔‘
پاکستان میں خواتین کو کاروبار کے سلسلے میں مخلتف چیلنجز کا سامنا ہے جن میں ان کو قرضوں اور سرمایہ کاری میں مردوں کی نسبت کم مواقع ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ خاندان، سماجی اور ثقافتی رکاوٹ کا سامنا بھی ہے۔ جبکہ کاروبار سے متعلق تعلیم اور تربیت کے مواقع کی کمی بھی خواتین کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔
پاکستان کمیٹیشن کمیشن نے اپنی ایک پریس ریلیز میں سٹیٹ بینک کی 2022 ایک رپورٹ کا حوالہ دیا ہے جس میں کہا گہا ہے کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار میں خواتین کو قرضوں کا تین اعشاریہ دو فیصد ملا۔
’کارخانہ شروع کرنے میں جسمانی کمی بھی آڑے نہیں آئی‘
بائیں ہاتھ سے محروم سعدیہ اسرار کے لیے اپنا کاروبار کسی خواب سے کم نہیں تھا۔ شوہر منشیات کا عادی ہونے کی وجہ سے وہ مشکل سے سلائی مشین چلاتی تھیں۔
لیکن دو سال قبل سعدیہ اسرار جب کسی فلاحی ادارے سے مدد لینے گئیں، تو قسمت ان پر مہربان ہو گئی۔
ان کے مطابق ’آج میں 18 برس کے بیٹے کی مدد سے گھر کے ایک کمرے میں صابن بنانے کا ایک چھوٹا سا کارخانہ چلا رہی ہوں۔ نہ تعلیم یافتہ ہوں، نہ سمجھ بوجھ تھی بس ایک گھریلو خاتون تھیں جو سلائی مشین سے بمشکل دو وقت کا کھانا پورا کرتی تھیں۔ صائمہ محبوب نے میرے لیے ایک کسٹمائزڈ مشین قسطوں پر بنائی جو میں پیروں سے چلاتی ہوں اور اس سے صابن بناتی ہوں۔‘
ان کے مطابق ’آج میں اس چھوٹے سے کاروبار سے ایک لاکھ روپے کما لیتی ہوں۔ نہ صرف اپنے بچوں کی تعلیم کا خرچہ اٹھا رہی ہوں بلکہ گھر کا کرایہ اور دیگر اخراجات بھی خود پورے کر رہی ہوں۔‘
’اب تو خاندان والے بھی تعریف کرتے ہیں کہ میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی ہوں۔ میری اور بچوں کی زندگی آسان ہو گئی ہے۔ سب سے بڑی بات اس کاروبار میں میری جسمانی کمی بھی آڑے نہیں آئی۔‘

حکومت خواتین کو باروزگار بنانے کے لیے کیا کر رہی ہے؟
خیبر پختونخوا میں سمال اینڈ میڈیم انٹر پرایزز ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سمیڈا) کے صوبائی چیف راشد امان کے مطابق صوبے میں دو سے ڈھائی فیصد خواتین کاروبار سے جڑی ہیں جبکہ مجموعی طور پر فارمل اور انفارمل شعبوں میں کام کرنے والی خواتین کی شرح سات سے آٹھ فیصد ہے۔
سمیڈا صوبے کی خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کیا کر رہی ہے؟ اس کے جواب میں راشد امان نے کہا کہ حکومت کی طرف سے گزشتہ ایک دہائی میں خواتین کے لیے روزگار کے متعدد مواقع فراہم کیے گئے ہیں۔
’ان میں سیلون، جمز، کچن، کسٹمائزڈ پیکجنگ، ایونٹ مینجمنٹ وغیرہ کی تربیت شامل ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کے پاس کم تعلیم یافتہ خواتین کے لیے بھی روزگار کے مواقع موجود ہیں، جن کے وہ گھر بیٹھ کر کام کر سکتی ہیں۔‘