راولپنڈی کے علاقے روات کے رہائشی 23 سالہ طلحہ محمود (فرضی نام ) نے آج سے دو سال قبل سوشل میڈیا پر چند ایسے اشتہارات دیکھے جن میں دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ کچھ بیٹنگ ایپس یا آن لائن گیمز کھیل کر باآسانی پیسہ کمایا جا سکتا ہے۔
پہلے تو انہوں نے ان اشتہارات کو نظر انداز کر دیا مگر جب یہ دیکھا کہ ان کے کچھ دوست بھی یہی ایپس استعمال کر رہے ہیں اور منافع کمانے کے دعوے کر رہے ہیں تو وہ بھی قائل ہونے لگے۔
مزید پڑھیں
طلحہ محمود یقین دلایا گیا کہ اگر وہ ہزار روپے لگائیں گے تو دس ہزار مل سکتے ہیں اور اگر 10 ہزار لگائیں تو ایک لاکھ روپے تک بھی کمایا جا سکتا ہے۔
یہ سن کر ان کا شوق بڑھا اور انہوں نے بھی ایپس ڈاؤن لوڈ کر کے گیمز کھیلنا شروع کر دیے۔
شروع میں قسمت نے ساتھ دیا لیکن پھر کیا ہوا،اپنی یہ کہانی انہوں نے اُردو نیوز کے ساتھ شیئر کی ہے۔
طلحہ محمود نے بتایا کہ مختلف ایپس کے ذریعے وہ صرف پانچ ہزار روپے لگا کر پچاس ہزار روپے تک نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ منافع بڑھتا گیا تو وہ اس حد تک گیمز کے عادی ہو گئے کہ گھر پر گیمز کھیلنا، کھانا پینا اور سونا ہی ان کی زندگی کا معمول بن گیا۔
دلچسپی جتنی بڑھتی گئی آہستہ آہستہ اتنا ہی نقصان ہوتا چلا گیا۔ ایک وقت آیا کہ طلحہ محمود ایک لاکھ روپے تک گنوا بیٹھے مگر ایپس پر مسلسل یہ آپشن آتا رہا کہ وہ اپنی ہاری ہوئی رقم واپس جیت سکتے ہیں۔
اشتہارات اور دوستوں کی باتوں نے انہیں گیمز مزید کھیلنے پر آمادہ رکھا۔ ایک سال تک وہ اسی چکر میں پھنسے رہے اور ایزی پیسہ اور جیز اکاؤنٹ لنک کر کے رقم ڈالتے رہے۔
نوبت یہاں تک پہنچی کہ طلحہ نے 50 لاکھ روپے آن لائن جوئے میں گنوا دیے لیکن بات یہیں ختم نہ ہوئی۔

اس دوران ان کی شادی بھی ہو گئی اور انہوں نے اپنی بیوی کو 15 تولہ سونا تحفے میں دیا جس کی مالیت تقریباً 30 سے 40 لاکھ روپے تھی۔ مگر گیم کی لت اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ طلحہ نے یہ سونا بھی بیچ کر بیٹنگ ایپس میں لگا دیا۔
یوں مجموعی طور پر وہ 90 لاکھ روپے سے محروم ہو گئے اور آخر میں ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ جب گھر والوں کو اس نقصان کا علم ہوا تو ان کے پاؤں تلے زمین نکل گئی اور والد نے انہیں گھر سے نکال دیا۔
یہ صرف طلحہ محمود کی کہانی نہیں، بلکہ پاکستان میں اسی طرح کے درجنوں نوجوان بیٹنگ ایپس میں لاکھوں روپے گنوا چکے ہیں اور آخرکار ان کے حصے میں صرف پچھتاوا ہی آتا ہے۔
ان واقعات کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی نیشنل سائبر کرائم کنٹرول ایجنسی نے حالیہ دنوں 40 سے زائد بیٹنگ ایپس پر پابندی عائد کرنے کے لیے پی ٹی اے کو باضابطہ درخواست دی ہے۔
ایجنسی کے مطابق یہ ایپس نہ صرف غیر قانونی بیٹنگ کا ذریعہ ہیں بلکہ صارفین کی قیمتی ذاتی معلومات بھی چوری کرتی ہیں۔
یہ ایپس نہ صرف گیمنگ کے ذریعے صارفین کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ ایسے کیسز بھی سامنے آئے ہیں جہاں ان ایپس کے ذریعے شہریوں کی قیمتی معلومات بھی چوری کی گئی ہیں۔
اُردو نیوز نے اس حوالے سے سائبر سکیورٹی میں وسیع تجربہ رکھنے والے ایف آئی اے کے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل عمار جعفری سے رابطہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ایسے آن لائن یا سائبر کریمنلز اپنے ہدف یعنی صارفین کی نفسیات کو بھی پڑھ لیتے ہیں۔ جب انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ کوئی مخصوص گیم کھیلنے والا صارف اس کا عادی ہو چکا ہے، تو وہ ایسے ہی ذرائع سے اس سے پیسہ نکلوانا اور اسے نقصان پہنچانا شروع کر دیتے ہیں۔‘

انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ایسی ایپس صارف کو شروع میں منافع بھی دیتی ہیں اور یہ حوصلہ افزائی بھی کرتی ہیں کہ وہ زیادہ سرمایہ لگا کر زیادہ کما سکتے ہیں، لیکن اس کے بعد صورتحال نہایت سنگین ہو جاتی ہے۔
عمار جعفری نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ایپس آپ کو اپنا بینک اکاؤنٹ لنک کرنے کا آپشن دیتی ہیں اور جیسے ہی آپ کچھ پیسہ لگاتے ہیں، تو اس کے جواب میں یا تو آپ کو کچھ منافع ملتا ہے یا آپ کا سارا سرمایہ ڈوب جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ لوگ عام شہریوں سے پاکستانی کرنسی میں ہی پیسہ لیتے ہیں، لیکن بعد میں کسی نہ کسی طرح اسے بٹ کوائن کی شکل میں ملک سے باہر بیچ کر منی لانڈرنگ میں استعمال کرتے ہیں۔
اسی طرح سائبر سکیورٹی ماہر ہارون بلوچ کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر لوگوں کو اس بات پر قائل کیا جاتا ہے کہ وہ سرمایہ کاری کریں اور اس کے بدلے انہیں مالی فائدہ ہوگا۔
انہوں نے اس دھندے کو واضح کرتے ہوئے بتایا کہ جب لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ آپ کی ادائیگی اس اکاؤنٹ میں سرمایہ کاری کے طور پر جمع ہو رہی ہے تو حقیقت میں وہ کوئی بزنس اکاؤنٹ نہیں ہوتا بلکہ دوسرے افراد کے ذاتی اکاؤنٹس ہوتے ہیں۔ ان افراد کو بھی اس جال میں پھنسایا جاتا ہے کہ انہیں ابتدائی طور پر کچھ فائدہ ہوگا۔
’ایک شہری سے پیسہ لے کر دوسرے کو وقتی طور پر فائدہ دے دیا جاتا ہے لیکن بعد میں ان سب کو جال میں پھنسا کر ان کا سرمایہ ہڑپ کر لیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے حال ہی میں گرفتار ہونے والے معروف یوٹیوبر ڈکی بھائی کا بھی حوالہ دیا، جنہوں نے ایک ایسی ہی ایپ کی پروموشن کے لیے ویڈیو بنائی تھی، جو حقیقت میں اس طرح کے سکیم (فراڈ) میں ملوث ہو سکتی ہے۔