Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جج کے بیٹے کی گاڑی کی ٹکر سے دو لڑکیوں کی موت، متاثرہ خاندانوں نے ملزم کو معاف کردیا

اسلام آباد کے سیکریٹیریٹ چوک کے قریب ہائی کورٹ کے جج کے بیٹے کی گاڑی کی ٹکر سے ہلاک ہونے والی دونوں لڑکیوں کے خاندانوں نے ملزم کو معاف کر دیا ہے۔
سنیچر کو مقامی عدالت میں چار روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد ملزم محمد ابوذر ریکی کو جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ کنڈی کی عدالت میں  پیش کیا گیا۔
سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ جج کے بیٹے اور متاثرہ خاندانوں کے درمیان صلح ہو چکی ہے، جس کے تحت متاثرہ فیملیوں نے عدالت میں ملزم کو معاف کرنے کا بیان ریکارڈ کروایا۔
متاثرہ فیملیوں کے بیانات کے بعد عدالت نے ملزم ابوذر کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا۔
عدالتی کارروائی کے دوران  ہلاک ہونے والی لڑکی ثمرین حسین کے بھائی اور والدہ کا بیان ریکارڈ کیا گیا، جبکہ مرنے والی دوسری لڑکی تابندہ بتول کے والد کا بیان قلم بند کیا گیا۔
یاد رہے کہ پیر اور منگل کی درمیانی شب اسلام آباد کے سیکریٹیریٹ چوک کے قریب اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محمد آصف کے کم عمر بیٹے محمد ابوذر کی گاڑی کی ٹکر سے سکوٹی پر سوار دو لڑکیاں، ثمرین حسین اور تابندہ بتول جان سے ہاتھ دھو بیٹھی تھیں۔
اسلام آباد پولیس نے واقعے کے بعد ملزم کے خلاف دفعات 322، 279 اور 427 کے تحت ایف آئی آر درج کر کے اسے گرفتار کیا تھا، اور بعد ازاں عدالت سے چار روزہ جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کیا۔
اس حوالے سے تابندہ بتول کے والد غلام مہدی نے اردو نیوز سے گفتگو میں تصدیق کی کہ دونوں خاندانوں نے ملزم کو معاف کر دیا ہے۔
اس سے قبل مقتولہ کے والد نے بتایا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج خود تعزیت کے لیے ان کے گھر آئے اور اُنہوں نے  اعتراف کیا تھا کہ ان کے بیٹے سے غلطی ہوئی ہے۔
اردو نیوز کو معلوم ہوا ہے کہ عدالتی کارروائی سے قبل ہی ملزم کے خاندان اور متاثرہ خاندانوں کے درمیان صلح کے لیے بات چیت ہو چکی تھی اور معاملات طے پا گئے تھے، جس کی باضابطہ تصدیق عدالت میں بیان ریکارڈ کروا کر کی گئی۔
اس واقعے کے بعد تابندہ بتول کے والد نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا  تھا کہ تابندہ کی موجودگی اُن کے لیے بڑا سہارا تھی، مگر اب یقین نہیں آرہا کہ وہ ہمارے درمیان نہیں رہی۔‘
تابندہ گذشتہ چند برسوں سے (پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس) پی این سی اے میں ایک نجی کمپنی کے ساتھ ایونٹ مینجمنٹ کا کام کر رہی تھیں۔
غلام مہدی کا مزید کہنا تھا  کہ پیر کی شب تین بجے انہیں فون کال موصول ہوئی کہ ان کی بیٹی کا حادثہ ہو گیا ہے اور وہ پمز ہسپتال میں ہیں۔ ان کے مطابق ’اس خبر کے بعد سے انہیں صحیح طرح سے نیند نہیں آئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ اطلاع ملتے ہی میں اور میری اہلیہ فوری طور پر ہسپتال پہنچے، لیکن میں وہاں کا منظر بیان نہیں کر سکتا، کیونکہ تب تک میری بیٹی اور اس کی سہیلی دونوں زندگی کی بازی ہار چُکی تھیں۔
’تابندہ بتول نے کوئی تین ماہ قبل اپنی سکوٹی خریدی تھی، کیونکہ وہ بااختیار خاتون بننا چاہتی تھیں۔ وہ سکوٹی پر ہی اپنے دفتر کی ساتھی اور دوست ثمرین حسین کے ساتھ آتی جاتی تھیں۔‘
ہائی کورٹ کے جج کے بیٹے کی گاڑی کی ٹکر سے ہلاک ہونے والی دوسری لڑکی ثمرین حسین کے بھائی عدنان تجمل نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ ان کی ہمشیرہ ایونٹ کے بعد چند روز چھٹیاں لے کر اپنی نیند پوری کرنا چاہتی تھیں، لیکن قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔
’ثمرین پی این سی اے میں ایک نجی کمپنی کے ساتھ صرف ایک ماہ سے ایونٹ مینجمنٹ کا کام کر رہی تھیں۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد انہوں نے انٹیریئر ڈیزائننگ کا کورس کیا تھا۔انہوں نے اپنے بڑے بھائی سے ضد کر کے ملازمت کرنے کی اجازت حاصل کی تھی۔‘
عدنان تجمل نے پولیس کی تحقیقات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے  کہا تھا  کہ ایف آئی آر میں ان کے مطالبے کے باوجود ملزم اور اس کے والد کا نام شامل نہیں کیا گیا۔
’پولیس نے جائے وقوعہ سے نشانات بھی ختم کر دیے ہیں، اور سی سی ٹی وی فوٹیج بھی تاحال فراہم نہیں کی گئی۔ اب وہ ملزم کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد کیس کا جائزہ لیں گے۔‘

شیئر: