Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طویل قید اور ہزاروں یورو جُرمانہ، یونان اب پاکستانیوں کا ’پہلا پڑاؤ‘ نہیں رہا؟

اب پاکستانی 14 روز کے اندر نہ تو اتنی جلدی یونان چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی وطن واپس لوٹ پاتے ہیں (فائل فوٹو: اے پی)
ڈنکی کے ذریعے یورپ پہنچنے والوں کے لیے داخلی دروازہ سمجھے جانے والے ملک یونان کی حکومت نے غیرقانونی امیگریشن روکنے کے لیے ایسے سخت قوانین نافذ کیے ہیں جنہوں نے وہاں موجود ہزاروں پاکستانیوں کو شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ 
ان قوانین کے تحت پناہ کی درخواست مسترد ہونے کے بعد 14 دن کے اندر ملک نہ چھوڑنے پر دو سے پانچ سال قید اور 10 ہزار یورو تک جُرمانہ ہوگا۔
اس کے علاوہ یونان کے امیگریشن قوانین میں غیرقانونی داخلے پر حراست کی مدت 24 ماہ تک بڑھانا، اور سات سال سے ’بغیر کاغذ‘ رہنے والوں کے لیے بھی رجسٹریشن مکمل طور پر بند کر دینا جیسی سزائیں بھی شامل کردی گئی ہیں۔ 
نئے قوانین سے پہلے یونان پہنچنے والے پاکستانی عام طور پر چند روز یا زیادہ سے زیادہ چند ہفتے سرحد کے قریب واقع ’ڈیٹینشن کیمپوں‘ میں رکھے جاتے تھے۔ 
زیادہ تر افراد کو ابتدائی کاغذی کارروائی کے بعد ایک ماہ سے بھی کم مدت میں رہا کر دیا جاتا تھا اور ان سے کہا جاتا تھا کہ وہ یونان کے اندر ہی ’اپنا انتظام‘ کریں یا پناہ کی درخواست دے دیں۔ 
اسی وجہ سے کئی پاکستانی یہ سمجھتے رہے کہ یونان میں غیرقانونی طور پر رہنا ممکن ہے اور جلد یا بدیر کوئی نہ کوئی رجسٹریشن سکیم کُھل جائے گی۔ 
کچھ افراد نے تو سمندری راستے سے آنے کے باوجود صرف 10 سے 20 دن قید کاٹی، جب کہ زمینی سرحد سے آنے والوں کو کبھی کبھی چند ہفتے تک رکھا جاتا تھا اور پھر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ 
یہی وہ موقع تھا جس نے انسانی سمگلروں کو مزید ہمت دی اور وہ ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں کو یونان پہنچا کر کروڑوں روپے بٹور رہے تھے۔ 
یونان میں رہنے والے پاکستانی زیادہ تر زرعی شعبے میں یومیہ اُجرت پر مزدوری کرتے ہیں، خاص طور پر کپاس، زیتون، آڑو اور ٹماٹر کی فصلوں میں کام کرتے ہیں۔ 
بعض نوجوان تعمیرات، باغبانی، ریسٹورنٹس، صفائی اور جُزوقتی کاموں میں مصروف ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں رہنے والے اکثر صرف ’سیزنل ورک‘ پر گزارہ کرتے ہیں۔ 
ان کی اوسط آمدن عموماً 30 سے 40 یورو یومیہ تھی۔ وہ بھی تب جب کام مل جائے اور پولیس چیکنگ نہ ہو۔ کئی پاکستانی ’کاغذ نہ ہونے‘ کے باعث آجر کے رحم و کرم پر رہتے ہیں اور بعض اوقات انہیں یومیہ 20 یورو پر بھی کام کرنا پڑتا ہے۔ 

پناہ کی درخواست مسترد ہونے کے بعد 14 دن کے اندر ملک نہ چھوڑنے پر دو سے پانچ سال قید ہو گی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس غیر مستحکم آمدن کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ رہائش، کھانے اور سفر کے اخراجات کم سے کم آدھی کمائی کھا جاتے ہیں۔
یونان میں رہائش اختیار کرنا بھی بہت سے پاکستانیوں کا اصل مقصد نہیں تھا۔ بیشتر افراد یونان کو اٹلی، سپین، فرانس یا جرمنی پہنچنے کے لیے ایک ’پہلا پڑاؤ‘ سمجھتے تھے۔ 
یونان سے یورپ کے دیگر ممالک جانے کے لیے پاکستانی مختلف طریقے استعمال کرتے تھے۔ بعض افراد جعلی سفری دستاویزات کے ذریعے یورپ کے اندر سفر کرنے کی کوشش کرتے۔
کچھ انسانی سمگلروں کو دوبارہ ہزاروں یورو ادا کر کے ٹرکوں کے خفیہ خانوں میں سرحد پار کرنے کی کوشش کرتے اور کئی افراد مقدونیہ، البانیہ اور بلغاریہ کے پہاڑی یا جنگلاتی راستے استعمال کرتے تھے۔ 
کئی پاکستانی ایسے بھی تھے جو یونان میں کچھ سال کام کر کے رقم جمع کرتے، پھر فیکٹریوں یا زرعی فارموں میں ’غیررجسٹرڈ ورک‘ کر کے اٹلی جانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ 
بعض نوجوان ایسے بھی ہیں جو یونان کے اندرونی جزیروں سے فیری کے ذریعے اٹلی تک جانے کی خطرناک کوششیں بھی کر چکے ہیں۔
اب صورت حال بالکل بدل چکی ہے، چونکہ پناہ کی درخواست مسترد ہونے کے بعد صرف 14 دن کا وقت دیا جاتا ہے، اس لیے زیادہ تر پاکستانی نہ تو اتنی جلدی ملک چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی وطن واپس لوٹ سکتے ہیں۔ 

نئے قوانین کے بعد یونان میں غیرقانونی طور پر مقیم 12 سے 15 ہزار پاکستانی غیریقینی کیفیت میں مبتلا ہیں (فائل فوٹو: وِکی میڈیا)

نئی پالیسی کے بعد یونان میں مقیم ایسے قریباً 12 سے 15 ہزار پاکستانی جن کے پاس کاغذات نہیں ہیں یا جنہوں نے برسوں تک کھیتی باڑی اور تعمیرات کے شعبے میں کام کیا، سب ایک غیریقینی کیفیت میں مبتلا ہیں۔
بڑے شہروں میں ’آئی ڈی چیک‘ معمول سے کہیں زیادہ سخت ہو چکے ہیں اور ایتھنز و تھیسالونیکی کے پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ عام بس میں سفر کرنا بھی خطرہ بن چکا ہے۔
پاکستانی کمیونٹی کے مطابق گذشتہ ہفتوں کے دوران درجنوں پاکستانیوں کو حراست میں لیا گیا اور اب چونکہ حراستی مدت 24 ماہ تک بڑھا دی گئی ہے، اس لیے ہر گرفتار شخص کو خوف ہے کہ وہ برسوں تک حراستی مراکز میں رہ سکتا ہے۔ 
پاکستانی سفارت خانے نے اپنے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ یورپ میں ’غیر دستاویزی زندگی‘ نہ صرف قانون شکنی ہے بلکہ جان، مستقبل، عزت اور کمائی ہر چیز کے لیے خطرناک ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اب یونان ’پہلا پڑاؤ‘ نہیں بلکہ ایک ایسا ملک بن چکا ہے جہاں غیر قانونی تارکین وطن کے لیے گرفتاری، حراست، جرمانے اور ملک بدری ہی مستقبل ہے اور آنے والے مہینوں میں یہ سختیاں مزید بڑھ سکتی ہیں۔

 

شیئر: