پنجاب میں سیلابی صورتحال: کیا انڈیا پانی کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے؟
پنجاب میں سیلابی صورتحال: کیا انڈیا پانی کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے؟
بدھ 27 اگست 2025 15:53
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق، انڈیا کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سندھ طاس معاہدہ صرف ایک تکنیکی فریم ورک نہیں بلکہ پورے خطے میں استحکام کی ضمانت ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان صوبہ خیبر پختونخوا میں شدید طوفانی بارشوں اور کلاؤڈ برسٹ کے باعث ہونے والی تباہی سے ابھی سنبھلا بھی نہ تھا کہ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے، پنجاب، کو بھی سیلابی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اگرچہ اس صورتِ حال میں مقامی طور پر ہونے والی بارشوں کا بھی کردار ہے، لیکن انڈیا کی جانب سے دریاؤں میں پانی چھوڑے جانے کے بعد معاملہ مزید سنگین ہو گیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے انڈیا کے اس اقدام کو ’آبی جارحیت‘ قرار دیا جا رہا ہے، اور یہ اعتراض بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ انڈیا نے سندھ طاس معاہدے کے تحت قائم کمیشن کے بجائے سفارتی ذرائع سے پانی چھوڑنے کی اطلاع دی، جو کہ دونوں ممالک کے مابین طے شدہ معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے۔ کیونکہ معاہدہ کسی بھی فریق کو اسے یکطرفہ طور پر معطل یا غیر فعال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ اور وزارتِ آبی وسائل کے مطابق، گزشتہ 36 گھنٹوں میں انڈیا نے راوی، ستلج اور چناب میں اونچے درجے کے سیلابی ریلوں کے بارے میں تین بار مطلع کیا، لیکن یہ اطلاعات دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ذریعے فراہم کی گئیں۔ حالانکہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق یہ ذمہ داری انڈس واٹر کمشنرز پر عائد ہوتی ہے کہ وہ باضابطہ طور پر الرٹس اور ڈیٹا فراہم کریں۔ پاکستان نے انڈیا کے اس طرزِ عمل کو معاہدے کی روح کو کمزور کرنے اور یکطرفہ فیصلوں کو معمول بنانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق، موجودہ صورتِ حال ظاہر کرتی ہے کہ انڈیا منظم طریقے سے معاہدے کو غیر مؤثر بنانے کی راہ پر گامزن ہے، کیونکہ عالمی فورمز پر بھی انڈیا کے مؤقف کو، جو معاہدے کی خلاف ورزیوں کے حق میں پیش کیا جاتا ہے، تسلیم نہیں کیا جا رہا۔
سندھ طاس معاہدہ، جو ستمبر 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی کے ذریعے انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور پاکستانی صدر ایوب خان کے درمیان طے پایا تھا، دونوں ممالک کے مابین سب سے دیرپا معاہدہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس کے تحت پاکستان کو مغربی دریا، سندھ، جہلم اور چناب، جبکہ انڈیا کو مشرقی دریا، راوی، بیاس اور ستلج، کے پانی کا حق دیا گیا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں پاکستان میں تربیلا اور منگلا جیسے بڑے ڈیم تعمیر ہوئے، جنہوں نے نہ صرف زرعی زمینوں کو سیراب کیا بلکہ بجلی کی پیداوار میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
دونوں ممالک کے درمیان آبی تنازعات کے حل اور مستقل رابطے کے لیے ایک مشترکہ کمیشن قائم کیا گیا، جو پانی کی تقسیم اور سیلابی صورتِ حال پر مسلسل بات چیت کا ذریعہ رہا ہے۔ یہ فورم طویل عرصے تک سالانہ اجلاس منعقد کرتا رہا، جہاں تحفظات سنے اور مسائل کے حل کی کوششیں کی جاتی رہیں۔
تاہم حالیہ برسوں میں انڈیا کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انڈیا میں اس معاہدے کو اپنی ’شکست‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور وہاں سے بارہا مطالبہ کیا گیا ہے کہ انڈیا اس معاہدے سے نکل جائے۔ عملاً انڈیا نے کئی برسوں سے اس کمیشن اور معاہدے کو غیر فعال کر رکھا ہے، اور اپریل میں انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں ہونے والے ایک دہشت گردانہ حملے کے بعد اس معاہدے کی معطلی کا اعلان بھی کر دیا گیا۔
2017 میں پاکستان نے انڈیا کے کشن گنگا ڈیم اور رتلے پاور سٹیشن پر اعتراضات اٹھائے تھے، جو بعدازاں عالمی بینک تک پہنچے۔ 2022 میں، عالمی بینک نے انڈیا کی درخواست پر ایک نیوٹرل ایکسپرٹ اور پاکستان کے مطالبے پر ایک بین الاقوامی ثالثی عدالت مقرر کی۔ 2023 میں انڈیا نے معاہدے میں ترمیم کی تجویز پیش کی، جسے پاکستان نے مسترد کر دیا، اور 2024 میں انڈیا نے انڈس کمیشن کے اجلاس منسوخ کر دیے۔
انڈس واٹر کمشنرز کی آخری ملاقات مئی 2022 میں ہوئی تھی، جس میں دریائے چناب اور جہلم پر انڈین منصوبوں کے تکنیکی پہلوؤں پر بات چیت کی گئی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
انڈس واٹر کمشنرز کی آخری ملاقات مئی 2022 میں ہوئی تھی، جس میں دریائے چناب اور جہلم پر انڈین منصوبوں کے تکنیکی پہلوؤں پر بات چیت کی گئی، تاہم اس کے بعد کوئی باضابطہ اجلاس نہیں ہوا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس طویل خاموشی نے موجودہ صورتِ حال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے، کیونکہ معمول کے رابطے نہ ہونے کی وجہ سے بحران کے وقت مؤثر بات چیت کے دروازے بند ہو چکے ہیں۔
اپریل میں کشمیر میں ہونے والے ایک دہشت گرد حملے کے بعد انڈیا نے معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا، جسے پاکستان نے غیر قانونی اور بین الاقوامی قوانین کے منافی قرار دیا۔ جون 2025 میں، ثالثی عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ سندھ طاس معاہدہ کسی فریق کو اسے یکطرفہ طور پر معطل کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اور عدالت نے اپنے دائرۂ اختیار کی توثیق بھی کی۔ انڈیا نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے عدالت کو ’غیر قانونی‘ قرار دیا۔
اب انڈیا کی جانب سے سیلابی ریلوں کی اطلاع انڈس کمیشن کے بجائے سفارتی ذرائع سے دینا بھی اسی یکطرفہ فیصلے کو تقویت دینے کی ایک اور کوشش قرار دی جا رہی ہے۔ پاکستان کی جانب سے اس پر باضابطہ ردِعمل بھی سامنے آیا ہے۔ دفترِ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ اسلام آباد نے انڈیا سے سخت احتجاج ریکارڈ کرایا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ آئندہ ایسی اطلاعات سندھ طاس کمیشن کے ذریعے فراہم کی جائیں، تاکہ معاہدے کی ساکھ اور علاقائی امن برقرار رکھا جا سکے۔
ترجمان کے مطابق، انڈیا کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سندھ طاس معاہدہ صرف ایک تکنیکی فریم ورک نہیں بلکہ پورے خطے میں استحکام کی ضمانت ہے، اور اسے یکطرفہ طور پر معطل کرنا کسی کے مفاد میں نہیں۔
پاکستان میں تعینات رہنے والے سابق ہائی کمشنر اور سفارت کار عبدالباسط کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید بڑھا سکتے ہیں۔
پاکستان نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ انڈیا کو معاہدے کی خلاف ورزیوں سے روکے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ان کے مطابق، انڈیا کی جانب سے انڈس واٹر کمشنر کے بجائے اسلام آباد میں موجود سفارتخانے کے ذریعے پانی چھوڑنے کی اطلاع دینا سفارتی آداب کے بھی خلاف ہے، اور یہ رویہ معاہدے کو غیر سنجیدہ لینے کا اشارہ ہے۔ معاہدے کے تحت براہِ راست تکنیکی رابطہ ہی سب سے مؤثر اور قابلِ اعتبار ذریعہ ہے، تاکہ فوری اور درست معلومات فراہم کی جا سکیں۔
آبی ماہرین نے اس امر پر زور دیا ہے کہ پاکستان کے ندی نالوں میں اچانک آنے والے پانی کے بہاؤ نے مقامی آبادی کو شدید خطرے سے دوچار کر دیا ہے، اور اگر بروقت اور درست اطلاع دی جاتی تو ان نقصانات میں نمایاں کمی لائی جا سکتی تھی۔ ان کے مطابق، اس صورتِ حال سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کا فقدان مزید گہرا ہو سکتا ہے۔
آبی امور کے ماہر ڈاکٹر پرویز امجد نے اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ پاکستان کی بقا کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر یہ معاہدہ ختم ہوا یا غیر فعال ہوا تو پاکستان کو نہ صرف زرعی، بلکہ توانائی اور ماحولیاتی بحران کا بھی سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ انڈیا جب چاہے گا، پاکستانی فصلوں کو برباد کرنے جیسے اقدامات کر سکے گا۔ اس سے خطے کا امن و امان بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کی کوشش دراصل ’سفارتی جارحیت‘ ہے۔ اگر یہ روش جاری رہی تو خطے میں پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا رجحان بڑھے گا، اور اس کے نتیجے میں امن و استحکام کو شدید دھچکا پہنچے گا۔
پاکستان نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ انڈیا کو معاہدے کی خلاف ورزیوں سے روکے اور اسے دوبارہ معاہدے کی مکمل پاسداری کا پابند بنائے۔ کیونکہ ماہرین کے مطابق، سندھ طاس معاہدہ نہ صرف ایک آبی معاہدہ ہے، بلکہ جنوبی ایشیا میں امن اور بقا کا ضامن بھی ہے، اور اگر یہ کمزور پڑ گیا تو خطہ ایک نئے اور شدید بحران سے دوچار ہو سکتا ہے۔