Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ میں مریضوں کی نصف تعداد ’پُرتشدد زخموں‘ کا شکار ہوئی، طبی جریدے میں انکشاف

ایم ایس ایف کے عملے نے بتایا کہ نچلے اعضاء کے زخموں میں سے تقریباً 60 فیصد دھماکہ خیز ہتھیاروں سے لگے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ایک معروف طبی جریدے میں شائع ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم میڈیسنز سانس فرنٹیئرز (ایف ایس ایف)کے زیرِانتظام آؤٹ پیشنٹ کلینکس میں علاج کروانے والے غزہ کے مریضوں میں سے تقریباً نصف کو اسرائیلی بمباری اور گولیوں سے لگنے والے زخموں کا سامنا تھا۔
عرب نیوز کے مطابق یہ انکشاف معروف طبی جریدے ’دی لینسٹ‘ میں شائع شدہ اعداد و شمار کے ذریعے ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان زخموں کا شکار ہونے والے تقریباً ایک تہائی مریض بچے تھے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دو برس سے جاری اسرائیلی حملوں نے فلسطینی شہریوں بالخصوص بچوں پر کس قدر تباہ کن اثرات ڈالے ہیں۔
یہ ڈیٹا غزہ کے وسطی اور جنوبی علاقوں میں قائم چھ ایم ایس ایف مراکز سے حاصل کیا گیا جہاں سنہ 2024 کے دوران دو لاکھ سے زائد آؤٹ پیشنٹ مشورے دیے گئے۔ ان میں سے 90 ہزار سے زائد مریضوں کو زخموں کا علاج فراہم کیا گیا جن میں 40 ہزار کے قریب زخم ’پُرتشدد حملوں‘ یعنی بمباری، شیلنگ اور فائرنگ کے نتیجے میں لگے تھے۔
رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ ان اعداد و شمار میں  ایم ایس ایف کے دیگر طبی شعبوں جیسے ایمرجنسی رومز اور آپریشن تھیٹرز میں زیرعلاج رہنے والے افراد شامل ہیں اور نہ ہی ان افراد کو شمار کیا گیا ہے جو حملوں کے دوران موقعے پر ہی ہلاک ہو گئے۔

ایم ایس ایف کے مراکز میں زخموں کا علاج کروانے والے مریضوں میں سے تقریباً ایک تہائی 15 سال سے کم عمر بچے تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

دو ہسپتالوں میں ایم ایس ایف کے عملے نے بتایا کہ نچلے اعضاء کے زخموں میں سے تقریباً 60 فیصد دھماکہ خیز ہتھیاروں سے لگے جن میں اکثر ہڈی، پٹھوں یا جلد کے کھلے زخم شامل تھے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ’دھماکہ خیز ہتھیار عام طور پر کھلے میدانِ جنگ میں استعمال کیے جاتے ہیں لیکن اب انہیں شہری علاقوں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ بے گھر افراد کے عارضی ٹھکانے ان ہتھیاروں اور ان کے اثرات کوئی تحفظ فراہم نہیں کرتے۔‘
فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک تقریباً 63 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں نصف سے زائد خواتین اور بچے شامل ہیں۔
ایم ایس ایف کے مراکز میں زخموں کا علاج کروانے والے مریضوں میں سے تقریباً ایک تہائی 15 سال سے کم عمر بچے تھے جبکہ ایک تہائی خواتین تھیں۔

فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک تقریباً 63 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ ڈیٹا اس وقت جمع کیا گیا جب اسرائیلی حکام نے رواں برس کے آغاز میں غزہ پر مکمل ناکہ بندی نافذ کی جس سے خوراک اور طبی امداد کی فراہمی بند ہو گئی۔ایم ایس ایف کے عملے نے پہلے ہی طبی سامان اور آلات کی شدید کمی کی نشاندہی کی تھی جو ان پیچیدہ زخموں کے علاج کے لیے ضروری تھے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ تقریباً 20 فیصد مریض جب پہلی بار علاج کے لیے آئے تو ان کے زخموں میں انفیکشن ہو چکا تھا۔ ایک مرکز میں انفیکشن کی شرح 28 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔
غزہ کا صحت کا نظام اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ سے تباہ ہو چکا ہے۔
جنگ سے قبل یہاں 36 فعال ہسپتالوں میں سے نصف بند ہو چکے ہیں جبکہ 1500 سے زائد فلسطینی طبی کارکن مارے جا چکے ہیں۔
ایم ایس ایف نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری تشدد نے ’جسمانی اور ذہنی نقصان اس سطح پر پہنچا دیا ہے کہ دنیا کے بہترین صحت کے نظام بھی اس کا سامنا نہیں کر سکتے۔‘

 
 

شیئر: