ایک معروف طبی جریدے میں شائع ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم میڈیسنز سانس فرنٹیئرز (ایف ایس ایف)کے زیرِانتظام آؤٹ پیشنٹ کلینکس میں علاج کروانے والے غزہ کے مریضوں میں سے تقریباً نصف کو اسرائیلی بمباری اور گولیوں سے لگنے والے زخموں کا سامنا تھا۔
عرب نیوز کے مطابق یہ انکشاف معروف طبی جریدے ’دی لینسٹ‘ میں شائع شدہ اعداد و شمار کے ذریعے ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان زخموں کا شکار ہونے والے تقریباً ایک تہائی مریض بچے تھے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دو برس سے جاری اسرائیلی حملوں نے فلسطینی شہریوں بالخصوص بچوں پر کس قدر تباہ کن اثرات ڈالے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
غزہ کے لیے سعودی عرب کی امداد، فلسطینی شہریوں کا شکریہNode ID: 893902
یہ ڈیٹا غزہ کے وسطی اور جنوبی علاقوں میں قائم چھ ایم ایس ایف مراکز سے حاصل کیا گیا جہاں سنہ 2024 کے دوران دو لاکھ سے زائد آؤٹ پیشنٹ مشورے دیے گئے۔ ان میں سے 90 ہزار سے زائد مریضوں کو زخموں کا علاج فراہم کیا گیا جن میں 40 ہزار کے قریب زخم ’پُرتشدد حملوں‘ یعنی بمباری، شیلنگ اور فائرنگ کے نتیجے میں لگے تھے۔
رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ ان اعداد و شمار میں ایم ایس ایف کے دیگر طبی شعبوں جیسے ایمرجنسی رومز اور آپریشن تھیٹرز میں زیرعلاج رہنے والے افراد شامل ہیں اور نہ ہی ان افراد کو شمار کیا گیا ہے جو حملوں کے دوران موقعے پر ہی ہلاک ہو گئے۔

دو ہسپتالوں میں ایم ایس ایف کے عملے نے بتایا کہ نچلے اعضاء کے زخموں میں سے تقریباً 60 فیصد دھماکہ خیز ہتھیاروں سے لگے جن میں اکثر ہڈی، پٹھوں یا جلد کے کھلے زخم شامل تھے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ’دھماکہ خیز ہتھیار عام طور پر کھلے میدانِ جنگ میں استعمال کیے جاتے ہیں لیکن اب انہیں شہری علاقوں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ بے گھر افراد کے عارضی ٹھکانے ان ہتھیاروں اور ان کے اثرات کوئی تحفظ فراہم نہیں کرتے۔‘
فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک تقریباً 63 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں نصف سے زائد خواتین اور بچے شامل ہیں۔
ایم ایس ایف کے مراکز میں زخموں کا علاج کروانے والے مریضوں میں سے تقریباً ایک تہائی 15 سال سے کم عمر بچے تھے جبکہ ایک تہائی خواتین تھیں۔
