امریکی ریاست لاس اینجلس کی بندرگاہ میں ایک ڈاک (پل) سے ٹکراتی لہروں پر تیرتے ہوئے نیلے پیڈل رقص کر رہے ہیں اور وہ سمندر کی طاقت کو قابلِ استعمال بجلی میں تبدیل کر رہے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی اتوار کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ جدید تنصیب فوسل فیولز سے دیگر ذرائع کی جانب منتقلی کو تیز کرنے کی ایک اہم کڑی ہو سکتی ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر دنیا کو موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات سے بچنا ہے تو یہ منتقلی ضروری ہے۔
مزید پڑھیں
اسرائیلی سٹارٹ اَپ ’ایکو ویو پاور‘ کی شریک بانی اِنا براورمین نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یہ منصوبہ بہت سادہ اور آسان ہے۔‘
یہ سسٹم کیسے کام کرتا ہے؟
پیانو کے بٹنوں کی طرح یہ نیلے پیڈلر ہر لہر کے ساتھ اوپر نیچے ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ پیڈلز تیرتے ہوئے پیڈل ہائیڈرالک پسٹن سے جڑے ہیں جو ایک بائیوڈیگریڈیبل سیال مادے کو پائپوں کے ذریعے بڑے سرخ سکوبا ٹینکوں جیسے ایکیومولیٹرز سے بھرے کنٹینر تک پہنچاتے ہیں۔
جب پسٹن پر دباؤ پڑتا ہے تو یہ ایک ٹربائن کو گھماتا ہے جو بجلی (کرنٹ) پیدا کرتی ہے۔
اگر کیلی فورنیا کے حکام اس پائلٹ پراجیکٹ سے مطمئن ہو جاتے ہیں تو انا براورمین کو امید ہے کہ وہ بندرگاہ کی 13 کلومیٹر طویل حفاظتی رکاوٹ کو سینکڑوں ایسے فلوٹرز سے ڈھانپ دیں گی جو مجموعی طور پر 60 ہزار امریکی گھروں کو بجلی فراہم کرنے کے لیے کافی ہو گی۔
اس ٹیکنالوجی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ لہروں کی توانائی لامتناہی طور پر قابلِ تجدید اور قابلِ بھروسہ توانائی کا ذریعہ ہے۔
اس کے برعکس شمسی توانائی رات میں کچھ پیدا نہیں کرتی اور ہوا کی توانائی کا انحصار موسم پر ہوتا ہے جبکہ سمندر ہمیشہ حرکت میں رہتا ہے۔
امریکی محکمہ توانائی کے مطابق امریکی مغربی ساحل کی لہریں 13 کروڑ گھروں کو بجلی فراہم کر سکتی ہیں یا دوسرے لفظوں میں وہ امریکہ میں ہر سال استعمال ہونے والی بجلی کا تقریباً ایک تہائی حصہ پورا کر سکتی ہیں۔
تاہم لہروں کی توانائی دیگر مشہور قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے اور اسے بڑے پیمانے پر کامیابی کے ساتھ تجارتی شکل نہیں دی جا سکی۔

لہروں کی توانائی کے شعبے کی تاریخ کمپنیوں کی ناکامیوں اور سمندر کے سخت اتار چڑھاؤ کی وجہ سے برباد ہو جانے والے منصوبوں سے بھری پڑی ہے۔
لہروں کی شدت کو برداشت کرنے کے لیے مضبوط آلات تیار کرنا اور ساتھ ہی پانی کے اندر کیبلز کے ذریعے بجلی کو ساحل تک منتقل کرنا اب تک ایک ناممکن کام ثابت ہوا ہے۔
انا براورمین نے کہا کہ ’99 فیصد کمپنیوں نے سمندر کے عین درمیان میں آلات کی تنصیب کی کوشش کی جو کہ بہت مہنگا فیصلہ تھا اور اس میں ہر وقت خرابی کا اندیشہ بھی رہتا ہے۔ اس لیے وہ ان منصوبوں کو کامیاب نہیں بنا سکتے۔‘
انا برورمین کا اپنے متعارف کردہ اس منصوبے سے متعلق خیال ہے کہ انہوں نے اس مسئلے کا حل تلاش کر لیا ہے۔
ان کے مطابق جب لہریں سسٹم کے لیے بہت زیادہ اونچی ہوتی ہیں تو فلوٹرز طوفان گزرنے تک اوپر کی پوزیشن پر آ جاتے ہیں اور اس طرح کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
