Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب: سوشل میڈیا کی نگرانی کے نئے مرکز کا اعلان، ’جامع حکمت عملی نظر نہیں آتی‘

یہ مرکز وفاقی حکومت کے اس ادارے کے ساتھ بھی منسلک ہوگا جس کا افتتاح چند ماہ قبل وزیرِاعظم نے کیا تھا (فوٹو: وزیراعظم آفس)
گزشتہ چند برسوں میں پاکستان کے صوبہ پنجاب کی حکومت نے بارہا ایسے منصوبوں کا اعلان کیا ہے جن کا بنیادی ہدف سوشل میڈیا کی نگرانی اور مشکوک سرگرمیوں کی نشاندہی ہے۔
تازہ ترین اعلان میں صوبائی حکومت نے ’انٹیلی جنس فیوژن اینڈ تھریٹ اسیسمنٹ سنٹر‘ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے لیے 13 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ حکومتی دعوؤں کے مطابق یہ مرکز جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ڈیجیٹل پروفائلنگ کرے گا، مشکوک افراد کی شناخت کرے گا اور سوشل میڈیا پر ہونے والی سرگرمیوں کا تجزیہ کرے گا۔
یہ اعلان اس وقت سامنے آیا ہے جب اس سے پہلے بھی مختلف ادارے اور محکمے سوشل میڈیا کی نگرانی کے لیے الگ الگ نظام بنا چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب پہلے ہی کئی یونٹ اور محکمے موجود ہیں تو ایک نیا مرکز بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور یہ سب ادارے ایک دوسرے سے کیسے مختلف ہیں؟

نیا مرکز

محفوظ روشن پاکستان کے منصوبے کے تحت بنایا جانے والا یہ نیا مرکز جدید سہولتوں سے لیس ہوگا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ نظام کالز اور تقاریر کو خودکار انداز میں متن میں تبدیل کر کے اس کا تجزیہ کرے گا۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے سوشل میڈیا پر مشکوک مواد یا مہمات کی نشاندہی کی جائے گی اور فوری کارروائی ممکن بنائی جائے گی۔
یہ مرکز وفاقی حکومت کے اس ادارے کے ساتھ بھی منسلک ہوگا جس کا افتتاح چند ماہ قبل وزیرِاعظم نے کیا تھا۔ وفاقی سطح پر نیکٹا کے تحت قائم ہونے والے اس مرکز کو نیشنل انٹیلی جنس فیوژن اینڈ تھریٹ اسیسمنٹ سنٹر کہا جاتا ہے، جو ملک بھر کے تمام صوبوں کو مربوط کرتا ہے۔

وفاقی سطح کا نظام

مئی 2025 میں وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں ایک بڑے پروگرام کے دوران نیکٹا کے تحت نیشنل انٹیلی جنس فیوژن اینڈ تھریٹ اسیسمنٹ سنٹر کا افتتاح کیا۔ اس مرکز کے ذریعے ملک بھر کے حساس ادارے اور صوبائی حکومتیں اپنی معلومات کو ایک جگہ شیئر کر سکتے ہیں۔
یعنی ایک طرف وفاقی حکومت کا یہ مرکز ملک بھر میں فعال ہے، تو دوسری طرف پنجاب حکومت اب ایک الگ صوبائی مرکز بنانے جا رہی ہے جس پر اربوں روپے خرچ ہوں گے۔

پولیس کے یونٹ

اس سے پہلے پنجاب پولیس بھی سوشل میڈیا کی نگرانی کے لیے اپنے الگ یونٹس قائم کر چکی ہے۔ 2021 میں پولیس نے ’سوشل میڈیا مانیٹرنگ یونٹ‘ بنایا جس کا مقصد شہریوں کو بروقت آگاہی دینا اور مشکوک مواد کی نشاندہی کرنا تھا۔

ڈی جی پی آر کے تحت بھی ایک نگرانی کا نظام موجود ہے جو میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہونے والی سرگرمیوں پر نظر رکھتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اس کے ساتھ ہی ’سوشل میڈیا انیلسیز سنٹر‘ اور ’سائبر پیٹرولنگ یونٹ‘ بھی قائم کیے گئے ہیں۔ ان یونٹس نے حالیہ برسوں میں سینکڑوں ایسے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور پوسٹس کی نشاندہی کی جنہیں فیس بک، انسٹاگرام، یوٹیوب اور ایکس سے ہٹایا گیا۔

دیگر ادارے

اطلاعات کے محکمے یعنی ڈی جی پی آر کے تحت بھی ایک نگرانی کا نظام موجود ہے جو میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہونے والی سرگرمیوں پر نظر رکھتا ہے۔ اسی طرح پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی نے شہروں میں کیمرہ نیٹ ورک اور نگرانی کے مراکز کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا مانیٹرنگ سیل بھی قائم کیے ہیں۔ اگرچہ ان کا بنیادی ہدف عوامی مقامات کی نگرانی ہے، لیکن یہ بھی ڈیجیٹل مانیٹرنگ کے دائرے میں آ جاتے ہیں۔

بار بار منصوبے کیوں؟

پاکستانی کی داخلی سکیورٹی لینڈ سکیپ پر نظر رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر ارشد، جو ان دنوں آسٹریلیا میں تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں روایت رہی ہے کہ ہر نئی حکومت اپنے دور میں کوئی نیا ادارہ قائم کرنے کو اپنی کامیابی سمجھتی ہے۔ پہلے سے موجود اداروں کو بہتر کرنے کے بجائے نیا ادارہ بنا دینا آسان لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بیک وقت کئی ادارے ایک ہی نوعیت کا کام کر رہے ہوتے ہیں۔‘
’لیکن میرے خیال میں یہ صورت حال قدرے مختلف ہے اور حکومت سوشل میڈیا کو ریگولرائز کرنے کے لیے ہمہ وقت مصروف دکھائی دیتی ہے۔ اس لیے مختلف اداروں میں بیک وقت ایک ہی طرز کے مانیٹرنگ سیل بن گئے ہیں۔ لیکن غور سے دیکھا جائے تو یہ سارے نظام ایک طرح کے نہیں ہیں مماثلت ضرور ہے لیکن انفرادیت بھی ہے۔‘
ریٹائرڈ پولیس افسر اور سکیورٹی تجزیہ کار راؤ طارق کہتے ہیں کہ ’سوشل میڈیا اب صرف تفریح کا ذریعہ نہیں رہا، یہ شدت پسندی کے بیانیے، افواہوں اور سیاسی مہمات کا سب سے بڑا میدان ہے۔ حکومت کے لیے یہ خطرہ بن چکا ہے۔ اس لیے ہر ادارہ اپنی سطح پر کوئی نہ کوئی مانیٹرنگ سیٹ اپ بنا لیتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کوئی جامع اور مربوط حکمت عملی نظر نہیں آتی۔‘
ان کے مطابق اگر یہ تمام ادارے ایک مرکزی کمانڈ کے تحت کام کریں تو نہ صرف اخراجات بچ سکتے ہیں بلکہ کارکردگی بھی بہتر ہو سکتی ہے۔

پنجاب حکومت کے حالیہ اعلان نے یہ سوالات ایک بار پھر زندہ کر دیے ہیں کہ آخر کتنے ادارے سوشل میڈیا کی نگرانی کریں گے (فوٹو: مسلم لیگ ن)

ڈیجیٹل رائٹس کی کارکن مریم خان کہتی ہیں کہ ’سوشل میڈیا کی نگرانی کے نام پر جو بھی نظام بنایا جاتا ہے، اس کا سب سے بڑا اثر عام شہریوں پر پڑتا ہے۔ یہ واضح نہیں ہوتا کہ کون سا مواد ’مشکوک’ قرار پائے گا اور یہ فیصلہ کون کرے گا۔ اس بات کا خطرہ رہتا ہے کہ یہ نظام سیاسی اختلاف یا ناقدین کو دبانے کے لیے استعمال ہو۔‘
ان کے مطابق دنیا کے کئی ممالک میں سوشل میڈیا مانیٹرنگ کے نظام موجود ہیں، لیکن ان کے ساتھ سخت قوانین اور نگرانی کے اصول بھی ہوتے ہیں تاکہ شہری آزادیوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔ پاکستان میں اس پہلو کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
پنجاب حکومت کے حالیہ اعلان نے یہ سوالات ایک بار پھر زندہ کر دیے ہیں کہ آخر کتنے ادارے سوشل میڈیا کی نگرانی کریں گے اور ان کے درمیان فرق کیا ہے۔ بظاہر ہر نیا منصوبہ پہلے والے کی جگہ لینے کے بجائے اس پر ایک نئی تہہ چڑھاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک طرف حکومت کے پاس سکیورٹی کے حقیقی خدشات ہیں، لیکن دوسری طرف شہری آزادیوں اور مالی وسائل کے ضیاع کے سوالات بھی ہیں۔ اگر یہ نظام ایک دوسرے سے مربوط نہیں ہوئے تو نتیجہ اختیارات کی تقسیم، بجٹ کا ضیاع اور عوامی بے اعتمادی ہی نکلے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا پنجاب حکومت اس بار کوئی مربوط اور شفاف نظام متعارف کرا پاتی ہے یا پھر یہ نیا منصوبہ بھی پہلے کی طرح اختیارات کے جنگل میں کھو جائے گا۔

شیئر: