دنیا کے سب سے بڑے اور قیمتی ہیروں میں شمار ہونے والے ’دریائے نور‘ کی کہانی کسی معمے سے کم نہیں ہے اور آج بھی نواب ڈھاکہ کے پڑ نواسے خواجہ نعیم مراد اس راز کی حقیقت کو جاننے کے لیے کوشاں ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سنہ 1908 میں اس ہیرے کو کئی تالوں کے پیچھے محفوظ کر دیا گیا تھا لیکن کیا 1947 میں برطانوی دور حکومت کے اختتام کے ساتھ یہ خاندانی ورثہ بھی کہیں غائب ہو گیا تھا۔
یہاں ایک اور بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا 1971 کی جنگ آزادی اور فوجی بغاوتوں کے دوران خاندانی وراثتیں بچ گئی تھیں؟
مزید پڑھیں
-
لندن: آرٹ میلے سے 30 لاکھ پونڈ کے زیورات و جواہرات چوریNode ID: 94701
-
کوہِ نور کا اصل حقدار کون؟Node ID: 415036
ماہرین کے خیال میں ہیرے جواہرات کئی سال پہلے ہی غائب ہو گئے تھے لیکن حکومتی بینک کے افسران اس چیمبر کو کھولنے سے کتراتے ہیں جہاں کئی سوالوں کے جواب چھپے ہیں۔
ان افسران کو ڈر ہے کہ اگر چیمبر خالی ہوا تو اس کی قیمت بھی انہیں ادا پڑے گی۔
تاہم حکومت نے اس معمے کو حل کرنے کے لیے کمیٹی کو حکم دیا ہے کہ وہ چیمبر کو کھولے اور حقیقت سامنے لے کر آئے۔
اس حکم کے بعد نواب ڈھاکہ سر سمیع اللہ بہادر کے 55 سالہ پڑ نواسے خواجہ نعیم مراد کے لیے امید کی کرن پیدا ہو گئی ہے۔
خواجہ نعیم مراد کا کہنا ہے کہ ’یہ کوئی خیالی کہانی ہے‘ بلکہ باپ دادا کے زمانے سے دہرائی گئی ایک حقیقت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مستطیل شکل کے اس ہیرے کے گرد چھوٹے چھوٹے درجنوں ہیرے جڑے ہوئے ہیں۔
یہ ہیرا دراصل 108 قیمتی اشیا پر مشتمل خزانے کا حصہ تھا۔ عدالتی دستاویزات کے مطابق اس خزانے میں سونے اور چاندی کی تلوار بھی شامل ہے جس میں ہیرے جڑے ہوئے تھے۔
اس کے علاوہ موتیوں سے بھری ٹوپی اور فرانسیسی ملکہ کے استعمال میں رہنے والا ایک بروج بھی خزانے کا حصہ ہے۔

بنگلہ دیشی فلم انڈسٹری کا حصہ رہنے والے خواجہ نعیم مراد اپنی خاندانی وراثت کے حوالے سے ایک کتاب بھی شائع کر چکے ہیں۔
انہوں نے اپنی کتاب میں دریائے نور ہیرے کو دنیا کے مشہور ترین ہیروں میں شمار کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس کی تاریخ کوہِ نور سے ملتی جلتی ہے۔
دریائے نور نام کا ایک اور ہیرا تہران میں موجود ہے جس میں گلابی رنگ کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
سنہ 1908 میں جب نواب ڈھاکہ سر سمیع اللہ بہادر کے دور میں حکومت مالی مسائل کا شکار ہوئی تو برطانیہ سے مدد مانگنا پڑی۔ لیکن اس کے بدلے میں انہیں ڈھاکہ کی وسیع جاگیر کو گروی رکھوانا پڑا اور جواہرات ایک چیمبر میں محفوظ کر دیے گئے۔
اس کے بعد سے یہ حقیت ایک معمے کی شکل اختیار کر گئی۔
خواجہ نعیم مراد کے مطابق 1980 کی دہائی میں ان کے چچا نے جواہرات بینک میں پڑے ہوئے دیکھے تھے لیکن بینک کے افسران کا کہنا ہے کہ انہیں اس حوالے سے معلومات نہیں کہ کیا چیمبر کو کبھی کھولا بھی گیا ہے۔