پاکستان کی سیاست میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ حکومت کے اپنے ہی اراکین ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو بظاہر اپوزیشن کے بیانیے سے ملتی جلتی دکھائی دیتی ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف ان دنوں ایسے ہی بیانات کی وجہ سے موضوعِ بحث ہیں۔
کبھی وہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر سخت جملے لکھتے ہیں، تو کبھی ٹی وی انٹرویوز میں ایسے سوالات اٹھاتے ہیں جو براہِ راست حکومت کے رویے، بیوروکریسی اور اراکین اسمبلی کی مراعات پر تنقید کے مترادف سمجھے جاتے ہیں۔
حال ہی میں ریلوے کے وزیر حنیف عباسی نے ان بیانات کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ ’جسے حکومت پسند نہیں وہ اپوزیشن میں چلا جائے۔‘
مزید پڑھیں
-
حکومتِ پاکستان نے 59 دن میں 1.63 کھرب روپے قرض کلیئر کر دیاNode ID: 894041
اس جملے کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ سوال شدت سے اُبھرا کہ آخر وزیر دفاع کو مسئلہ کس سے ہے اور وہ اپنی ہی حکومت پر بار بار تنقید کیوں کر رہے ہیں۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ان کے حالیہ اور پرانے بیانات کو یکجا کر کے دیکھا جائے تو ایک دلچسپ اور کڑی در کڑی کہانی سامنے آتی ہے۔
دو روز قبل قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ ’ہمارے ملک میں بلدیاتی ادارے بے دست و پا ہیں۔ پنجاب میں تو ہیں ہی نہیں۔ بلدیاتی ادارے آپ کے سسٹم کی حفاظت کریں گے، کیونکہ وہ جواب دہ ہوں گے۔ لیکن ہم بلدیاتی اداروں کو سیاسی مقاصد کا ٹُول سمجھتے ہیں۔‘
چند ماہ پہلے اراکین اسمبلی اور ایوانِ بالا کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے فیصلے پر انہوں نے اسے ’مالی فحاشی‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ اقدام عوام کی مشکلات کے بالکل برعکس ہے۔
ان کے مطابق سیاست دانوں کو شاہانہ طرزِ زندگی اختیار کرنے کے بجائے عوامی دکھ درد کا احساس ہونا چاہیے، کیونکہ عزت و وقار کی اصل بنیاد عوام ہیں۔ یہ وہ موقع تھا جب ان کی تنقید کا مرکز سپیکر اور اسمبلی کے دیگر ارکان بنے اور ان کا لب و لہجہ حکومتی پالیسیوں سے ہٹ کر نظر آیا۔
اسی کے کچھ عرصے بعد سیالکوٹ کے ایک اعلیٰ افسر کی گرفتاری ہوئی جس نے ماحول کو مزید کشیدہ کر دیا۔ اگرچہ اس گرفتاری کا خواجہ آصف سے براہِ راست تعلق ثابت نہ ہوا، لیکن اس کے فوراً بعد ان کے بیانات میں سختی نمایاں ہو گئی۔ اسی دوران رائیونڈ میں نواز شریف سے ان کی ملاقات اور اس کی تصویر کے اجرا نے سیاسی قیاس آرائیوں کو اور زیادہ بڑھا دیا۔
پھر انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک ایسا بیان دیا جس نے سب کی توجہ کھینچ لی۔ ان کا کہنا تھا کہ آدھی سے زیادہ بیوروکریسی پرتگال میں جائیداد خرید چکی ہے اور شہریت کے لیے تیار بیٹھی ہے۔

انہوں نے بیوروکریٹس کو ’مگر مچھ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اربوں روپے ہڑپ کر کے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ سیاستدان صرف ’بچا کھچا‘ کھاتے ہیں۔ ان کا مؤقف تھا کہ سیاستدانوں کے لیے نہ پلاٹ ہیں نہ غیرملکی شہریت کیونکہ انہیں عوام کے سامنے الیکشن لڑنا پڑتا ہے، مگر بیوروکریسی بلا روک ٹوک مراعات سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔
بیوروکریسی نے البتہ اجتماعی طور ایک بے نامی اخباری بیان میں ان دعوؤں کی تردید کی، مگر خواجہ آصف اپنی بات پر ڈٹے رہے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ بیوروکریسی کا گذشتہ 78 برس میں کوئی احتساب نہیں ہوا۔
اپنی ذاتی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس دو کمروں کا فلیٹ ہے، نہ کوئی سرکاری گاڑی ہے اور نہ ہی بیرون ملک جائیداد۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کے بیان پر اتنا شور مچے گا لیکن اب وہ نام بھی افشا کرنے کو تیار ہیں۔
یہی نہیں، انہوں نے ایک شخص ’وِرک‘ کا حوالہ دیتے ہوئے الزام لگایا کہ وہ بیوروکریسی اور اشرافیہ کو پرتگال میں سہولت فراہم کرتا ہے۔ بعد میں انہوں نے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی ایک رپورٹ کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ ایک بیوروکریٹ پر پوری سروس کے دوران 860 ملین روپے خرچ ہوتے ہیں، بیوروکریسی کے مجموعی اخراجات ساڑھے تین کھرب روپے سالانہ ہیں، اور ان کے مطابق 25 سے 30 فیصد افسران کرپٹ ہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ہر سال اثاثے ظاہر کیے جائیں، پلاٹوں کی الاٹمنٹ ختم ہو اور دوہری شہریت رکھنے والے افسران کو کوئی خصوصی درجہ نہ دیا جائے۔
یوں ایک طرف وہ اراکین اسمبلی کی شاہانہ مراعات کو نشانہ بناتے ہیں اور دوسری طرف بیوروکریسی پر کڑی تنقید کرتے ہیں۔ یہ امتزاج ان کے بیانات کو محض ایک انتظامی مسئلے سے زیادہ ایک سیاسی بیانیہ بنا دیتا ہے، جس نے ان کی اپنی حکومت کے اندر بھی کھلبلی مچا دی ہے۔
تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟

اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے تجزیہ کار رضا رومی نے کہا کہ ’خواجہ آصف نے بیوروکریسی پر انگلیاں اٹھا کر ایک اہم بحث چھیڑ دی ہے لیکن ان کے بیانات میں ثبوت کی کمی انہیں محض سیاسی نعروں تک محدود کر دیتی ہے۔ ان کے مطابق اگر واقعی اصلاحات مقصود ہیں تو ان بیانات کو پالیسی کی شکل دینے کے لیے وہ بطور وزیر دفاع اور ممبر پارلیمان اپنا کردار ادا کیوں نہیں کر رہے؟‘
’ایسے لگ رہا ہے کہ وہ پارٹی کے اندر کسی معاملے پر خوش نہیں ہیں۔ ان کے ضلع کے اے ڈی سی آر کو پنجاب حکومت کے انٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ نے گرفتار کیا۔ اس کے بعد انہوں نے یہ بیوروکریسی والے بیان دیے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سب سے اہم بات یہ ہے کہ نواز شریف سے ملاقات کے بعد بھی ان کی طرف سے سلسلہ رکا نہیں ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے معاملہ کچھ سنجیدہ ہے۔ ن لیگ کے اندر ان کے بیانات کو اچھا نہیں سمجھا گیا۔ لیکن اصل صورت حال کچھ اور وقت گزرنے کے بعد واضع ہو گی۔‘
’کیا وہ پنجاب حکومت سے نالاں ہیں یا وہ کسی پارٹی پالیسی پر مطمئن نہیں ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا لیکن سوال تو جنم لے چکے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ شاید وہ اندرونی سیاست میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
کالمسٹ تجزیہ کار دانیال احمد کہتے ہیں کہ ’خواجہ آصف نے اگرچہ یہ واضح کیا کہ صرف 25 سے 30 فیصد افسران کرپٹ ہیں، لیکن بغیر شواہد کے پورے سسٹم پر انگلی اٹھانا خطرناک عمل ہے۔ ان کے مطابق ایسے بیانات بیوروکریسی میں عدم اعتماد کو بڑھاتے ہیں اور حکومتی مشینری کو کمزور کرتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اگر ان کے مطالبات کو عملی طور پر آگے نہ بڑھایا گیا تو یہ بیانات خود ان کی سیاسی ساکھ پر بھی سوال کھڑے کر سکتے ہیں۔ لیکن وزیر دفاع کی طرف سے ایسے بیانات کا آنا معمولی ہر گز نہیں ہو سکتا۔‘
خواجہ آصف کے یہ متواتر بیانات حکومتی صفوں میں کسی حد تک بے چینی پیدا کر چکے ہیں۔ اور وزیر ریلوے حنیف عباسی کا حالیہ بیان اس تاثر کو مزید گہرا کرتا ہے۔ ماہرین کی رائے ہے کہ ایک حکومت کو اس حوالے سے سرکاری طور پر اپنی پوزیشن واضح کرنے کی بھی ضرورت ہے۔