Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدر پوتن اور شی جن پنگ کی گفتگو: کیا انسان 150 سال سے زیادہ زندہ رہ سکتا ہے؟

صدر شی جن پنگ اور صدر پوتن کی یہ گفتگو ایس سی او کے سربراہی اجلاس کے دوران ریکارڈ ہوئی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
روسی صدر ولادیمیر پوتن اور چینی صدر شی جن پنگ کی ایک حالیہ گفتگو ’ہاٹ مائیک‘ پر ریکارڈ ہوئی ہے، جس میں وہ یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ کیسے انسانی اعضا کی پیوندکاری اور میڈیکل سائنس کی ترقی سے انسان کی عمر 150 سال سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے یا انسان لافانی ہوسکتے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ گفتگو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے بیجنگ آنے والے روسی صدر کی چینی صدر کے ساتھ ملاقات کے دوران ریکارڈ ہوئی، تاہم سوال یہ ہے کہ کیا اس دعوے کے پیچھے کوئی سائنسی بنیاد موجود ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ باتیں ابھی کافی دور کی کوڑی لگتی ہیں، لیکن عمر بڑھنے کی وجوہات اور اس عمل کو سست کرنے سے متعلق سنجیدہ تحقیق ضرور جاری ہے۔

کیا انسان کی عمر کی کوئی حد ہے؟

صدر پوتن اور شی جن پنگ، دونوں کی عمر اس وقت 72 سال ہے، اور دونوں نے اقتدار چھوڑنے کی کوئی خواہش ظاہر نہیں کی۔
اپنی گفتگو میں پوتن نے کہا کہ ’بائیو ٹیکنالوجی کی بدولت انسانی اعضا کو مسلسل بدلا جا سکتا ہے، اور ممکن ہے انسان جیسے جیسے بڑا ہو، ویسے ویسے جوان ہوتا جائے، اور شاید ایک دن لافانی بھی ہو جائے۔‘
شی جن پنگ نے بھی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ ماہرین کا خیال ہے کہ اس صدی میں انسان 150 سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔
تاہم سائنسی طور پر انسانی لافانیت کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ حتیٰ کہ سائنس دان اس پر بھی متفق نہیں کہ انسانی عمر کی کوئی فطری حد موجود ہے یا نہیں۔
یونیورسٹی آف شیفیلڈ کی ماہرِ عمرانیات ایلاریا بیلانتوانو کے مطابق ’یہ ایک کھلا سوال ہے، ابھی تک اس کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ حالیہ دہائیوں میں طب کے میدان میں بے پناہ ترقی کے باوجود، انسانی عمر کا ریکارڈ نہیں ٹوٹا۔
اب تک دنیا کی معمر ترین خاتون جین کالمنٹ ہی ہیں، جو 1997 میں 122 سال کی عمر میں چل بسیں۔

صدر پوتن اور شی جن پنگ، دونوں کی عمر 72 سال ہے، اور دونوں نے اقتدار چھوڑنے کی خواہش ظاہر نہیں کی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

کچھ سائنس دان سمجھتے ہیں کہ ممکن ہے ہم ابھی عمر کی حتمی حد تک نہ پہنچے ہوں، لیکن کچھ کا کہنا ہے کہ انتہائی عمر رسیدہ افراد کے بارے میں معلومات اکثر غلط بھی ہوتی ہیں، جیسے پیدائش کا جعلی سرٹیفیکیٹ کے ذریعے پنشن حاصل کرنا۔
کیا اعضا کی تبدیلی سے عمر بڑھائی جا سکتی ہے؟
صدر پوتن کا اشارہ صرف طویل عمر کی طرف نہیں تھا، بلکہ وہ تو یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اگر جسم کے اعضا وقتاً فوقتاً تبدیل کیے جاتے رہیں، تو انسان دوبارہ جوان ہو سکتا ہے۔
فرانسیسی ماہر ایرک بولانجر نے اسے ’پاگل پن‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ صرف اعضا کا معاملہ نہیں ہے، جسم میں ہڈیاں، چربی اور دوسرے ٹشو بھی شامل ہوتے ہیں، جو سب ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہوتے ہیں۔‘
’انسان کو گاڑی کی طرح سمجھنا کہ جس کا جو پرزہ خراب ہو، وہ بدل دیا جائے، یہ نہایت غیر حقیقی خیال ہے۔‘
ان کے مطابق بار بار سرجری کا جسم پر انتہائی نقصان دہ اثر ہو سکتا ہے، اور تازہ اعضا کی مستقل فراہمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

کیا طویل عمر کا خواب ایک منافع بخش صنعت بن چکا ہے؟

آج کل طویل زندگی نہ صرف سائنسی تحقیق کا موضوع ہے بلکہ کروڑوں ڈالر کا کاروبار بھی بن چکا ہے۔

صدر پوتن کہہ رہے تھے کہ اگر جسم کے اعضا وقتاً فوقتاً تبدیل کیے جاتے رہیں تو انسان دوبارہ جوان ہو سکتا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

روسی حکومت نے حال ہی میں 460 ملین ڈالر کی لاگت سے ایک بڑا منصوبہ شروع کیا ہے جس کا مقصد اعضا کی مرمت اور طویل عمر کی تحقیق ہے۔
اسی طرح سیلیکون ویلی کے سرمایہ کار، جیسے کہ پیٹر تھیل، اس شعبے میں بھاری سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔
ٹیکنالوجی سے وابستہ ایک اور شخصیت برائن جانسن نے تو ہمیشہ زندہ رہنے کو اپنا ذاتی مشن بنا رکھا ہے اور وہ خود پر مختلف اینٹی ایجنگ تجربات بھی کر رہے ہیں۔
لیکن زیادہ تر سائنس دان ان کوششوں کو غیر سائنسی اور خطرناک قرار دیتے ہیں۔

کیا کچھ سائنسی امیدیں بھی ہیں؟

حالیہ برسوں میں کچھ سنجیدہ سائنسی تحقیق خصوصاً ایپی جینیٹکس کے میدان میں ہوئی ہے۔
یہ شعبہ اس بات پر تحقیق کرتا ہے کہ جینز کس طرح بغیر ڈی این اے تبدیل کیے آن یا آف ہوتے ہیں اور وقت کے ساتھ یہ نظام خراب ہونے لگتا ہے، جس سے عمر بڑھتی ہے۔
’ریپامائسن نامی دوا  اس نظام پر اثر انداز ہو سکتی ہے، اور تحقیق سے پتا چلا ہے کہ یہ دوا چوہوں اور دیگر جانوروں کی عمر بڑھانے میں مؤثر رہی ہے لیکن انسانوں پر اس کے اثرات ابھی تک ثابت نہیں ہوئے۔

شیئر: