Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا کم آمدنی والے شہری اب اپنا گھر بنانے کا خواب پورے کر سکیں گے؟

بینکنگ سیکٹر میں بہتر رقم کی دستیابی نے بھی صارفین کو گھر بنانے کے لیے قرض لینے کی ترغیب دی (فائل فوٹو: پِکسابے)
پاکستان میں ہاؤس فائنانسنگ (گھروں کے لیے قرضہ دینے) کا شعبہ سال 2023 اور 2024 میں مشکلات کا شکار رہا، تاہم رواں سال یہ ایک بار پھر بہتری کی جانب بڑھ رہا ہے۔
ملک بھر میں گھروں کی تعمیر اور خریداری کے لیے دیے جانے والے قرضوں میں اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے تازہ اعدادوشمار کے مطابق جون اور جولائی 2025 میں گھر بنانے کے لیے دیے جانے والے قرضوں میں گذشتہ برس کی نسبت بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس سے ہاؤس فائنانس مارکیٹ میں امید کی کرن پیدا ہوئی ہے۔
محمد روحیل کراچی کے ایک نجی بینک میں گھروں کے لیے قرض دینے کے شعبے کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہاؤس فائنانسنگ کے شعبے سے وابستہ افراد کے لیے گذشتہ دو سال بہت زیادہ مشکل گزرے ہیں۔‘
’ملک میں شرحِ سُود تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی اور کاروباری سرگرمیاں بھی بہت محدود تھیں، جس کی وجہ سے ہاؤس فائنانسنگ کی جانب عوام کا رجحان نہ ہونے کے برابر تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس شعبے سے منسلک کئی افراد نے اس مشکل وقت میں اپنا پیشہ بھی تبدیل کر لیا، تاہم گذشتہ دو ماہ ہاؤس فائنانسنگ کے لیے اچھے گزرے ہیں۔‘
’ملک میں شرح سود میں کمی آئی ہے اور عوام کا اعتماد بھی بحال ہوا ہے۔ لوگ اب ایک بار پھر گھروں کی خریداری کے لیے بینکوں سے قرض لینے کے لیے رابطہ کر رہے ہیں۔‘
سٹیٹ بینک کے مطابق جون 2025 میں گھروں کے لیے دیے جانے والے مجموعی قرضے 207 ارب روپے سے زائد تھے، جو گذشتہ سال کی نسبت تقریباً ڈیڑھ فیصد زیادہ ہیں۔ 
یہ اضافہ جولائی میں بھی جاری رہا جب قرضوں کی کل رقم 208 ارب روپے سے تجاوز کر گئی، جو گذشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً تین فیصد کا اضافہ ہے۔
یہ مسلسل دوسرا مہینہ ہے جب ہاؤس فائنانسنگ میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جو اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ لوگ ایک بار پھر بینکوں سے گھر بنانے یا خریدنے کے لیے قرضے لے رہے ہیں۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے رواں سال کے آغاز میں ایک نرم مالی پالیسی اپنائی جس سے قرضے پر سُود دینے کی شرح میں کمی آئی ہے۔ 

ایک بینک افسر نے بتایا کہ ’شرح سود میں کمی کی وجہ سے لوگ گھر خریدنے کے لیے قرض لے رہے ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بینکنگ سیکٹر میں بہتر رقم کی دستیابی نے بھی زیادہ سے زیادہ صارفین کو گھر بنانے اور خریدنے کے لیے قرض لینے کی ترغیب دی۔
اگرچہ حالات میں بہتری آئی ہے، لیکن ہاؤس فائنانسنگ اب بھی پچھلے برسوں کے مقابلے میں کم ہے۔ مثال کے طور پر جون 2025 میں قرضوں کی کل رقم 207 ارب روپے تھی۔
یہ رقم جون 2023 کے 212 ارب روپے سے کم ہے۔ اسی طرح جولائی 2023 میں قرضے 211 ارب روپے تھے، جو موجودہ سال کے 208 ارب روپے سے زیادہ ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس کمی کی بنیادی وجوہات میں مہنگائی کے باعث گھر بنانے کے اخراجات میں اضافہ، عام آدمی کے لیے سستے گھروں کی کمی اور لوگوں کی قوتِ خرید کا مسلسل کم ہونا شامل ہیں۔
تعمیراتی صنعت سے وابستہ سید عدنان علی کہتے ہیں کہ ’ہاؤس فائنانسنگ مارکیٹ نہ صرف پاکستان میں رہائش کے بڑھتے ہوئے مسئلے کو حل کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے بلکہ یہ روزگار اور اس سے منسلک صنعتوں جیسے سیمنٹ، سٹیل اور فرنیچر وغیرہ پر بھی گہرا اثر ڈالتی ہے۔‘
’ہاؤس فائنانسنگ کی بحالی کا یہ سلسلہ جاری رہا تو یہ وسیع تر معاشی ترقی کو تحریک دے سکتی ہے، تاہم ساختیاتی چیلنجز اب بھی موجود ہیں۔‘

سٹیٹ بینک کے مطابق ’2025 میں گھر بنانے کے لیے دیے جانے والے قرضوں میں اضافہ ہوا ہے‘ (فائل فوٹو: وِکی میڈیا)

ان کا کہنا تھا کہ ’آبادی کا ایک بڑا حصہ اب بھی رسمی بینکاری تک رسائی نہیں رکھتا۔ آمدنی کے مقابلے میں سود کی بلند شرح، کم لاگت والے گھروں کی قلت، قرضے لینے کے لیے مشکل دستاویزی کارروائی، اور ہاؤس فائنانسنگ مصنوعات کے بارے میں کم آگاہی اس شعبے کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔‘
پاکستان کی ہاؤس فائنانس مارکیٹ سال 2025 میں ایک نئے عزم کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔
مرکزی بینک کے اعدادوشمار اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ مہنگائی میں کمی اور سود کی کم شرح نے عوام میں گھر خریدنے کے خواب کو دوبارہ زندہ کیا ہے، تاہم یہ سفر ابھی شروع ہوا ہے۔
حکومت اور بینکاری کے شعبے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کم آمدنی والے شہریوں کے لیے قرضوں کی رسائی آسان بنائیں، تعمیراتی لاگت میں کمی کے لیے اقدامات کریں اور عوام میں ہاؤس فائنانسنگ کے بارے میں آگاہی بڑھائیں۔
اگر ان رکاوٹوں پر قابو پا لیا گیا تو پاکستان کی ہاؤس فائنانسنگ صنعت نہ صرف لاکھوں افراد کے خوابوں کو حقیقت بنانے میں مددگار ثابت ہوگی بلکہ ملک کی معاشی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرے گی۔

شیئر: