امیگریشن اور اسلام مخالف ایکٹوسٹ ٹامی رابنسن کے زیرِاہتمام سینٹرل لندن میں ایک لاکھ 10 ہزار سے زائد افراد نے مارچ کیا جنہوں نے انگلینڈ اور برطانیہ کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق دارالحکومت میں ان کی بڑی نفری تعینات رہے گی۔ دوسری جانب ’سٹینڈ اپ ٹو ریسزم‘ کے نام سے ایک جوابی مظاہرہ بھی قریبی علاقے میں متوقع ہے، جو برطانیہ میں امیگریشن اور اظہارِ رائے کی آزادی پر جاری بحث کے پس منظر میں منعقد کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں
-
’اپنے ملک واپس چلی جاؤ‘، برطانیہ میں سکھ خاتون کا ریپNode ID: 894562
دوپہر تک مظاہرین کی بڑی تعداد دریائے ٹیمز کے جنوبی کنارے پر جمع ہو چکی تھی، جو بعد ازاں ویسٹ منسٹر کی جانب روانہ ہوئے، جہاں برطانوی پارلیمنٹ واقع ہے۔
مظاہرین نے برطانیہ کا یونین جیک اور انگلینڈ کا سرخ و سفید سینٹ جارج کراس اٹھا رکھا تھا، جبکہ بعض افراد نے امریکی اور اسرائیلی جھنڈے بھی لہرائے اور امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ والی ٹوپیاں پہن رکھی تھیں۔ مظاہرین وزیرِاعظم کیئر سٹارمر کے خلاف نعرے لگا رہے تھے اور ایسے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر ’انہیں واپس بھیجو‘ جیسے نعرے درج تھے۔ کئی شرکا اپنے بچوں کو بھی ہمراہ لائے تھے۔
’ہمیں رابنسن پر یقین ہے‘
رابنسن نے اس مارچ کو ’یونائیٹ دی کنگڈم‘ (ملک کو متحد کریں) کا نام دیتے ہوئے اسے آزادیِ اظہار کا جشن قرار دیا ہے۔ مارچ میں امریکی قدامت پسند کارکن چارلی کرک کی یاد میں سوگ کا پہلو بھی شامل ہے، جنہیں بدھ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
ٹامی رابنسن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ ’لاکھوں افراد پہلے ہی وسطی لندن کی سڑکوں پر نکل چکے ہیں، ہم اپنی آزادیوں کے لیے متحد ہو رہے ہیں۔‘
ٹومی رابنسن، جن کا اصل نام سٹیفن یاکسلی لینن ہے، خود کو ایک ایسا صحافی قرار دیتے ہیں جو ریاستی بدعنوانی کو بے نقاب کرتا ہے۔ ان کے حامیوں میں امریکی ارب پتی ایلون مسک بھی شامل ہیں۔ تاہم برطانیہ کی سب سے بڑی اینٹی امیگریشن سیاسی جماعت ’ریفارم یوکے‘ نے حالیہ مقبولیت کے باوجود رابنسن، جن کے خلاف کئی فوجداری مقدمات درج ہیں، سے فاصلہ اختیار کیا ہوا ہے۔
مارچ میں شریک ایک خاتون سینڈرا مچل کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنا ملک واپس چاہتے ہیں، ہم آزادی اظہار واپس چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’غیرقانونی امیگریشن بند ہونی چاہیے۔ ہم ٹومی پر یقین رکھتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ امیگریشن اس وقت برطانیہ میں سب سے بڑا سیاسی مسئلہ بن چکا ہے، جس نے معیشت کے بحران جیسے اہم معاملات کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ملک کو پناہ کی درخواستوں کی ریکارڈ تعداد کا سامنا ہے، اور رواں برس اب تک 28 ہزار سے زائد افراد چھوٹی کشتیوں کے ذریعے انگلش چینل عبور کر کے برطانیہ پہنچ چکے ہیں۔