Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جسٹس طارق جہانگیر کو کام سے روکنے کا حکم، عدالتی فیصلے کے خلاف وکلا کی ہڑتال

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جوڈیشل ورک سے روکنے کے عدالتی حکم کے خلاف اسلام آباد بار کونسل کی کال پر جزوی ہڑتال کی گئی ہے۔
دوسری جانب وکلاء نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سرفراز ڈوگر کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 
بدھ کو وکلاء کی ہڑتال کے باعث چیف جسٹس کی کاز لسٹ منسوخ ہو گئی جبکہ عدالت کے دیگر بینچز کی کارروائی بھی متاثر ہوئی۔
جسٹس ثمن رفعت امتیاز عدالت نہیں پہنچ سکیں جبکہ جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق پر مشتمل ڈویژن بینچ کی کارروائی بھی شروع نہیں ہو سکی۔
جسٹس ارباب محمد طاہر پہلے ہی تین روز کی رخصت پر ہیں تاہم کچھ وکلاء صرف ہنگامی نوعیت کے مقدمات میں عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں۔
 سیکریٹری ہائیکورٹ بار منظور ججہ نے وکلاء سے اپیل کی کہ وہ آج عدالتوں میں پیش نہ ہوں۔
جعلی ڈگری سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت
خیال رہے کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں جعلی ڈگری کی بنیاد پر شکایت فائل کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کراچی یونیورسٹی سے حاصل کردہ ان کی وکالت کی سند ’غیر معتبر‘ ہے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف درخواست ایڈووکیٹ میاں داؤد نے دائر کر رکھی ہے جس میں انھوں نے موقف اختیار کیا کہ معزز جج کی ڈگری جعلی ہے۔
اس بنیاد پر گزشتہ روز منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک کام سے روک دیا تھا۔ عدالت کی جانب سے دو صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا گیا جس پر چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان کے دستخط موجود ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کے خلاف وکلا نے ہڑتال کی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اس حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ چونکہ جج کی اہلیت کا سوال ہے اور اس بارے میں سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت بھی زیر سماعت ہے، اس لیے جسٹس جہانگیری کو جوڈیشل ورک سے روکا جا رہا ہے۔
مزید سماعت کے لیے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل سے معاونت طلب کی گئی ہے جبکہ کیس کو 21 اکتوبر تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔
عدالتی فیصلے پر وکلا کے تحفظات
بیرسٹر جہانگیر جدون نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کو آئین کے تحت کسی جج کو اس طرح کام سے روکنے کا اختیار حاصل نہیں، یہ حلف کی خلاف ورزی اور آئین سے انحراف ہے۔
’جب تک سپریم جوڈیشل کونسل کسی جج پر لگنے والے الزامات کو ثابت نہ کرے، اس وقت تک کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔‘
بیرسٹر جہانگیر جدون نے اس اقدام پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل خط اور جعلی ڈگری کا الزام
مبینہ جعلی ڈگری کا معاملہ اس وقت زیادہ توجہ کا مرکز بنا جب کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر ایک خط سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ طارق محمود جہانگیری نے 1991 میں انرولمنٹ نمبر 5968 کے تحت ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی، لیکن اسی انرولمنٹ نمبر کے ساتھ ایک اور امیدوار امتیاز احمد نے 1987 میں داخلہ لیا تھا۔
خط کے مطابق ایل ایل بی پارٹ ون کا ٹرانسکرپٹ طارق جہانگیری کے نام پر جاری کیا گیا جبکہ یونیورسٹی کے قوانین کے تحت ایک ہی پروگرام کے لیے کسی امیدوار کے دو انرولمنٹ نمبر نہیں ہو سکتے۔
خط میں ڈگری کو صریحاً جعلی قرار دینے کے بجائے اسے ’غلط‘ کہا گیا ہے کیونکہ ایک ہی طالب علم کے دو انرولمنٹ نمبرز ہونا اصولی طور پر ممکن نہیں ہے۔

 

شیئر: