Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تعلیم یا روزگار کے لیے اٹلی ویزا اپوائنٹمنٹ لینا ایک آزمائش کیوں؟

راولپنڈی کے علاقے گجرخان سے تعلق رکھنے والے فہد نور (فرضی نام) نے اٹلی کی ایک یونیورسٹی میں ماسٹرز کی ڈگری کے لیے داخلہ حاصل کیا تھا۔
ان کی کلاسز 15 ستمبر سے شروع ہونا تھیں، لیکن روانگی سے قبل ان کا ویزا اپوائنٹمنٹ اور دستاویزات کی تصدیق کے لیے اسلام آباد میں اٹلی کے سفارت خانے جانا ضروری تھا۔
فہد نور نے چار ماہ تک مسلسل کوشش کی مگر اپوائنٹمنٹ حاصل نہ کر سکے اور وہ اب تک اٹلی کے لیے روانہ نہیں ہو پائے۔
انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’انہوں نے آن لائن سسٹم کے ذریعے کئی بار اپوائنٹمنٹ لینے کی کوشش کی لیکن زیادہ تر سلاٹس ایجنٹس پہلے ہی بک کر لیتے ہیں۔‘
فہد نور اکیلے ایسے طالب علم نہیں۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک اور نوجوان کو بھی اٹلی کی ایک یونیورسٹی نے سکالرشپ دی۔ انہیں داخلے کا عمل مکمل ہونے کے باوجود ویزا اپوائنٹمنٹ حاصل کرنےکے لیے ساڑھے پانچ لاکھ روپے خرچ کرنا پڑے۔
وہ اس بات پر خوش تو ہیں کہ وہ بالآخر اٹلی پہنچ چکے ہیں لیکن ان کے مطابق قیمتی وقت کے ضیاع اور غیر یقینی کیفیت نے یہ سفر کٹھن بنا دیا تھا۔
اسلام آباد میں یورپی ممالک کے سفارت خانوں، بالخصوص اٹلی کے سفارت خانے سے اپوائنٹمنٹ لینے میں دشواری اب ایک معمول بن چکا ہے۔
تعلیم کے لیے بیرون ملک جانے والے ہوں یا روزگار اور دیگر وجوہات کے باعث ویزا کے حصول کے خواہش مند، سبھی کے لیے اپوائنٹمنٹ حاصل کرنا ایک آزمائش ہے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ یا تو انہیں لاکھوں روپے ایجنٹس کو دینا پڑتے ہیں یا پھر وہ خود ہی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔
اسلام آباد میں موجود اٹلی کے سفارت خانے نے اس مسئلے کے حل کے لیے چند اقدامات ضرور کیے ہیں، مگر ان کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آ سکے۔

شارٹ ٹرم ویزوں کو وی ایف ایس گلوبل کے سپرد کیا گیا ہے تاکہ سفارتخانے پر دباؤ کم ہو (فوٹو: شینگن انفو)

سفارت خانے نے اپوائنٹمنٹس کو صرف آن لائن بکنگ تک محدود کر دیا گیا ہے تاکہ بدنظمی اور رش سے بچا جا سکے۔ 
اسی طرح شارٹ ٹرم ویزوں کو وی ایف ایس گلوبل کے سپرد کیا گیا ہے تاکہ سفارت خانے پر دباؤ کم ہو اور زیادہ شہریوں کو سہولت فراہم کی جا سکے۔
لانگ ٹرم ویزوں کے لیے الگ کوٹہ مختص کیا گیا ہے جبکہ ہنگامی نوعیت کے کیسز کے لیے خصوصی سلاٹس بھی رکھی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مشکوک یا بوٹس کے ذریعے لی جانے والی اپوائنٹمنٹس کو منسوخ کرنے اور ایجنٹس کی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کے لیے بھی اقدامات کیے گئے ہیں۔
تاہم امیگریشن ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان سے بیرون ملک جانے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، ایجنٹوں کی اجارہ داری اور سفارت خانوں کی اپنی ترجیحات ہی ان مسائل کی بنیادی وجوہات ہیں۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جب کوئی شخص بیرون ملک جانے کے لیے ویزا حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے ایمبیسی کی اپوائنٹمنٹ لینا لازمی مرحلہ ہوتا ہے۔ اپوائنٹمنٹ کے ذریعے درخواست گزار اپنی ویزا ایپلیکیشن اور تمام ضروری دستاویزات جمع کرواتا ہے۔
امیگریشن کے ماہر اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے حقوق کے لیے سرگرم میجر (ر) بیرسٹر ساجد مجید نے اردو نیوز سے گفتگو میں اس مسئلے کی وجوہات اور اثرات پر روشنی ڈالی ہے۔

ساجد مجید کے مطابق ایک اور بڑی رکاوٹ سفارتخانوں کے کمپیوٹر سسٹمز ہیں (فوٹو: ان سپلیس)

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ حقیقت ہے کہ یورپی ممالک خصوصاً اٹلی کے سفارت خانے کی اپوائنٹمنٹس حاصل کرنا انتہائی مشکل بنا دیا گیا ہے، چاہے وہ طلبہ کے لیے ہوں، وزٹنگ ویزا کے لیے یا فیملی امیگریشن کے معاملات ہوں۔‘
بیرسٹر ساجد مجید کے مطابق سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کنسلٹنٹس یا ایجنٹس پہلے سے ہی اپوائنٹمنٹس بک کر لیتے ہیں اور بعد میں انہیں مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’بعض اوقات سفارت خانوں کے عملے کے لوگ بھی بروکرز کے ساتھ مل کر یہی کام کرتے ہیں اور مخصوص افراد کے ذریعے اپوائنٹمنٹس فروخت کی جاتی ہیں، جس کے باعث عام شہریوں کے لیے ویزا اپلائی کرنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’اکثر نوجوان یا بیرونِ ملک جانے کے خواہش مند افراد خود ای میل کے ذریعے اپوائنٹمنٹ بک کروانے کے بجائے ایجنٹس پر انحصار کرتے ہیں، جو ان سے بھاری فیس وصول کرتے ہیں لیکن کام مؤثر انداز میں نہیں کرتے۔ علاوہ ازیں، پاکستان سے یورپ جانے کے خواہش مند افراد کی بڑی تعداد بھی رش بڑھانے کی ایک اہم وجہ ہے۔‘
ساجد مجید کے مطابق ایک اور بڑی رکاوٹ سفارت خانوں کے کمپیوٹر سسٹمز ہیں۔ جب زیادہ لوگ ایک ساتھ اپلائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو سافٹ ویئر مناسب طریقے سے ریسپانس نہیں دیتا، جس سے اپوائنٹمنٹس میں مزید تاخیر ہو جاتی ہے۔

یاسر شمس  کے مطابق ’پاکستان میں موجود یورپی ممالک کے سفارت خانوں کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

بیرسٹر ساجد مجید نے  سفارت خانوں کی اپوائنٹمنٹس  نہ ملنے کے نقصانات پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’طلبہ کی تعلیم میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، ان کی ڈگریاں تاخیر کا شکار ہو جاتی ہیں اور ان کو مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ملازمت کے لیے جانے والے افراد کو اضافی چھٹیاں لینا پڑتی ہیں، جبکہ وزٹنگ ویزا کے حامل لوگ بیرونِ ملک اپنی کمٹمنٹس پورا نہیں کر پاتے۔‘
انہوں نے اس مسئلے کے حل کے لیے تجاویز بھی دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سفارت خانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے دفاتر کے باہر ایک کمپلین سیل قائم کریں جہاں لوگ براہِ راست اپنے مسائل درج کرا سکیں۔ ساتھ ہی سفارتخانے کے عملے کو چاہیے کہ پاکستانی شہریوں کی ای میلز کا بروقت جواب دیا جائے اور انہیں بھی وہی سہولتیں فراہم کی جائیں جو دیگر ممالک کے شہریوں کو دی جاتی ہیں۔‘
سینیئر وکیل اور امیگریشن کے ماہر یاسر شمس نے بھی اس معاملے پر اردو نیوز سے گفتگو کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں موجود یورپی ممالک کے سفارت خانوں کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’انہی ممالک کی یونیورسٹیاں پاکستانی طلبہ کو میرٹ پر پورا اترنے کے بعد داخلہ دے دیتی ہیں، لیکن جب انہیں سفارت خانے کی اپوائنٹمنٹ نہیں ملتی تو ان کی مہینوں کی محنت ضائع ہو جاتی ہے۔‘
یاسر شمس کے مطابق کسی بھی ملک کی یونیورسٹی جب غیر ملکی طلبہ کو داخلہ دیتی ہے تو اسے اپنی ایمبیسی کے ساتھ مل کر ایسا نظام وضع کرنا چاہیے جس سے ویزا پراسیس آسان ہو اور طلبہ کو اس نوعیت کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

شیئر: